کٹتا ہے وقت کیسے بتا دوں جناب کا
کٹتا ہے وقت کیسے بتا دوں جناب کا
قصہ سنایا کرتے ہیں عہد شباب کا
اے مولیٰ تو رحیم ہے یہ جانتا ہوں میں
رکھا ہے یوں ہی پیچ حساب و کتاب کا
تم آ گئے خوشی ملی آنسو ٹھہر گئے
گزرا کٹھن زمانہ مرے اضطراب کا
تاروں کے درمیان ہے جو امتیاز چاند
درجہ ہے گلستاں میں وہی تو گلاب کا
ململ کا استعمال بجا ہے مگر یہ کیا
چرچا ہے انجمن میں ابھی تک نقاب کا
اتنی خطا تھی نذرؔ تمہیں سرنگوں نہ تھے
ڈولا گزر رہا تھا جو عزت مآب کا