چمن میں گل فشانی ہو رہی ہے
چمن میں گل فشانی ہو رہی ہے
ہوا کی مہربانی ہو رہی ہے
یہاں میں قطرہ قطرہ گھل رہا ہوں
محبت پانی پانی ہو رہی ہے
میں اکثر نیند میں ڈرنے لگا ہوں
مری بیٹی سیانی ہو رہی ہے
ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ رہے ہیں
تمہیں کیوں بد گمانی ہو رہی ہے
ادھر مہمان اکثر آ رہے ہیں
ادھر چادر پرانی ہو رہی ہے
انہیں پلکوں پہ رکھا ہے بٹھا کر
انوکھی میزبانی ہو رہی ہے
ابھی تک نذرؔ کی پلکیں ہیں بھاری
بیاں شب کی کہانی ہو رہی ہے