قصۂ حسن نہیں عشق کی روداد نہیں
قصۂ حسن نہیں عشق کی روداد نہیں
حیف یہ بزم ترے ذکر سے آباد نہیں
مورد رنج و الم کشتۂ بیداد نہیں
وائے بر عیش جہاں مجھ کو خدا یاد نہیں
ہم صفیران چمن واہ یہ پرسش یہ کرم
اب مجھے شکوۂ بے مہریٔ صیاد نہیں
میں ہوں ناشاد ازل خیر مگر حیرت ہے
عشرت آباد جہاں میں بھی کوئی شاد نہیں
قصۂ جور فلک شکوۂ ایام زبوں
ایک افسانہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں
سرفروشان محبت پہ خدا کی رحمت
مدعی سب ہیں مگر ایک بھی فریاد نہیں
واہ اے منظر خوش وقتیٔ منزل قرباں
دشت غربت کی مصائب بھی مجھے یاد نہیں
میں خطا وار مگر تیرے کرم کے قرباں
ایک مجبور تو یوں مستحق داد نہیں
رازؔ یہ نامۂ احسن یہ پیام عزت
وائے تقدیر کہ میں آج بھی آزاد نہیں