قول و قرار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو

قول و قرار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو
لیل و نہار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو


خوابوں کا سود لے کے تمنا کی آگ میں
چیخ و پکار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو


اپنے ہی فلسفوں کا جنازہ نکال کر
کچھ سوگوار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو


اپنی غزل کا قافیہ لے اس دیار میں
لے کر ادھار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو


عشق ازل ہے سجدۂ توحید کی نظر
ہم بے قرار جلتے ہیں دولت کے رو بہ رو