عالم کوئے یار باقی ہے

عالم کوئے یار باقی ہے
عاشقوں کا دیار باقی ہے


میرؔ کا کھو چکے یہ بد قسمت
اور سب کا مزار باقی ہے


بزم سے تیری آئے ہیں اٹھ کر
آہ اب تک خمار باقی ہے


دعویٰ عشق ہے کیا ہم نے
حیف دل میں قرار باقی ہے


غنچہ و باغ راہ تاکے ہیں
اب کے آؤ بہار باقی ہے


اپنی تنہائیاں تو گن لی ہیں
وحشتوں کا شمار باقی ہے


خانۂ دل میں رہتی ویرانی
طاقچے پر غبار باقی ہے


آل حیدر مرادؔ ہے نسبی
مداح ذوالفقار باقی ہے