آج برسو کہ خواب دھل جائیں

آج برسو کہ خواب دھل جائیں
درد اور اضطراب دھل جائیں


برق کا رقص ہو یہاں ساقی
دل میں اٹھتے عذاب دھل جائیں


میرے نالوں کی پرورش کرنے
تم جو آؤ حجاب دھل جائیں


وصل کا ہو گلا سیاہی سے
اور لکھے وہ باب دھل جائیں


کاش چشم حیات رو رو کر
آب سے ہو کے آب دھل جائیں


شیخ کہتا ہے جھوم کر مجھ سے
آؤ پی کر شراب دھل جائیں


ان کی نظروں کی اک عنایت ہو
آج خانہ خراب دھل جائیں


بزم میں اب مرادؔ آئیں اور
بن سگ بو تراب دھل جائیں