ہم سے تم ہو اور تم سے ہم بھی ہیں

ہم سے تم ہو اور تم سے ہم بھی ہیں
اور اس کے درمیاں کچھ غم بھی ہیں


حالت دل ہے ہماری ضبط میں
چشم بے پردہ ہماری نم بھی ہیں


شاہ کے در پہ ہیں دیوانے سبھی
اور لہراتے ہوئے پرچم بھی ہیں


کہہ دیا کہ جاؤ اب تو ہجر ہے
پڑ گئے ابرو میں ان کے خم بھی ہیں


آج ہے محفل سجی اک درد کی
اور زلفیں درہم و برہم بھی ہیں


جو بقا میں وارث کوثر ہوئے
وہ فنا میں وارث زمزم بھی ہیں


آ گئے ہیں اب سرہانے وہ مرادؔ
اور اب گنتی کے اپنے دم بھی ہیں