کئی زخم اب تک سنبھالے ہوئے ہیں

کئی زخم اب تک سنبھالے ہوئے ہیں
قلندر کے سینے پہ چھالے ہوئے ہیں


تری حسرتوں کے کئی داغ لے کر
مری تیرگی میں اجالے ہوئے ہیں


کہ بے چارگی کا مزا ہم سے پوچھو
ہم ان کی گلی سے نکالے ہوئے ہیں


یہ نغمے یہ آہیں یہ نالے تماشا
یہ خون جگر کے نوالے ہوئے ہیں


یہ تحریر فن بھی انہیں کا ہے زیور
جو آہ و فغاں کے حوالے ہوئے ہیں


ہیں تیرے ہی دم سے سمندر بھی رقصاں
یہ تو نے ہی دریا اچھالے ہوئے ہیں


وہ فاقہ کشی میں غزل لکھ رہے تھے
جنازے بھی جن کے مقالے ہوئے ہیں


مرادؔ جہاں اب تو بس ہی کرو تم
قلم بند کتنے ہی نالے ہوئے ہیں