میں تھا دل میں اور تنہائی ہوئی

میں تھا دل میں اور تنہائی ہوئی
آج کچھ زخموں کی بھرپائی ہوئی


جس کی خاطر میں جگا تھا ہجر میں
وہ کہیں تھی خواب میں آئی ہوئی


میں ہوں دیوانہ وہی پھر بات ہے
درد نے ہے روح بھی کھائی ہوئی


تیرے دامن کی ہوا ہے خلد سی
سانس ہے پھولوں نے مہکائی ہوئی


کچھ تصور کو سنو کچھ عشق کو
اور کچھ میری غزل گائی ہوئی


ظلمتوں کے بند کمرے میں یہاں
تو مرے اندروں کی بینائی ہوئی


عقل کو ہے طاق پر رکھا ہوا
عشق نے ہے چال بہکائی ہوئی


بے بسوں کی اس عدالت میں مرادؔ
اور کچھ اشکوں کی سنوائی ہوئی