قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
قضا سے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ


نہ جاؤ تم ابھی تاروں کا دل دھڑکتا ہے
تمام رات پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ


بجھے بجھے سے ستارے تھکی تھکی سی نگاہ
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ


نہیں امید کہ ہم آج کی سحر دیکھیں
یہ رات ہم پہ کڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ


حیاتؔ کا دم آخر نہیں ہے جان حیات
یہ فیصلے کی گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ