قرار تجھ کو دل بے قرار آ جائے

قرار تجھ کو دل بے قرار آ جائے
تڑپ کچھ ایسے کہ ظالم کو پیار آ جائے


نوازشوں پہ اگر حسن یار آ جائے
زبان خار کو نطق ہزار آ جائے


طلوع صبح سے روشن چراغ رکھتے ہیں
کٹے بھی دن وہ شب انتظار آ جائے


ترا بھی اے غم دوراں میں زور دیکھوں گا
ذرا سکوں میں دل سوگوار آ جائے


غضب کی دھوپ ہے اے دل نہ بیٹھ رستے میں
ٹھہر ٹھہر شجر سایہ دار آ جائے


اسی فریب کو حسن فریب کہتے ہیں
وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے


نگار خانۂ احباب سے غرض مجھ کو
کسی شمار میں یہ خاکسار آ جائے


غموں کی شرح سے بزم جہاں میں رونق ہے
بپا ہو حشر اگر اختصار آ جائے


بڑی حسین زمانے کی چال ہے لیکن
فریب میں دل ناپختہ کار آ جائے


نذیرؔ صبح نہ پھر وقت شام دیکھیں گے
نظر میں حاصل لیل و نہار آ جائے