کسک تھی دل میں ابھی اضطراب ایسا تھا

کسک تھی دل میں ابھی اضطراب ایسا تھا
ہمارے پاس تھا کوئی کہ خواب ایسا تھا


مرے جنوں کو فضیلت مآب تم نے کیا
جہان عشق میں کس کا خطاب ایسا تھا


لگا کہ آنکھ ہی پتھرا گئی ہے نرگس کی
ہمارے ساتھ جو رویا سحاب ایسا تھا


نظر میں کوئی سمندر کبھی سمایا نہیں
مگر وجود ہمارا حباب ایسا تھا


رہیں نگاہ میں مبہم حقیقتیں سب کی
ہر ایک چہرے پہ دہرا نقاب ایسا تھا


پریشاں کرتی ہے رہ رہ کے اب بھی وہ خوشبو
وفا شعار وہ رشک گلاب ایسا تھا


کتاب دار و رسن تک ہی پڑھ سکے اکثر
کمال عشق کا مشکل نصاب ایسا تھا


زمانہ گزرا مگر اب بھی ہے وہ درد جگر
ازل سے دل کا مرے انتخاب ایسا تھا


زمانہ آج بھی عزت سے نام لیتا ہے
نذیرؔ آپ کا خانہ خراب ایسا تھا