چلئے کی راہ میں ہیں شجر سایہ دار بھی
چلئے کی راہ میں ہیں شجر سایہ دار بھی
دیتے ہیں داد آبلہ پائی کی خار بھی
ناکامیوں کے بعد بھی رکتے نہیں قدم
مجبوریوں میں رکھتے ہیں ہم اختیار بھی
انسان ٹھہرا شعلہ و شبنم کا ہم مزاج
جنت کی آرزو ہے گناہوں سے پیار بھی
راتوں کا سلسلہ ہو کہ دن کی تجلیاں
پابند چشم یار ہیں لیل و نہار بھی
رہنے دو اپنا ہاتھ ابھی میرے ہاتھ میں
ڈرتا ہوں کھو نہ دوں کہیں دل کا قرار بھی
وعدہ پہ اس کی کتنی خوشی ہے نہ پوچھئے
آتا نہیں ہے دل کو مگر اعتبار بھی
کہہ دے زمانہ کچھ بھی مجھے غم نہ کر نذیرؔ
لگتا نہیں ہے جب کہ مجھے ناگوار بھی