کسی صورت کسی پہلو سکون دل نہیں ملتا
کسی صورت کسی پہلو سکون دل نہیں ملتا
کہاں ڈھونڈیں وہ جان رونق محفل نہیں ملتا
عقیدت ہے محبت ہے بڑی قربت بھی ہے لیکن
خدا جانے کہ کیوں مجھ سے تمہارا دل نہیں ملتا
میں واقف ہوں دل بسمل کہ تیرا مدعا کیا ہے
پریشاں ہیں نگاہیں کوچۂ قاتل نہیں ملتا
مزاج یار کی صورت زمانہ رخ بدلتا ہے
کبھی ماضی سے میرا حال و مستقبل نہیں ملتا
یہ دنیا دل ربا بھی ہے یہ دنیا بے وفا بھی ہے
یہاں ہر چیز ملتی ہے سکون دل نہیں ملتا
یہاں آساں نہیں جینا یہاں مرنا بھی مشکل ہے
محبت میں کسی کو مدعائے دل نہیں ملتا
زمانہ تھا انہی موجوں پہ میری حکمرانی تھی
ہوا یہ حال کشتی کو بھی اب ساحل نہیں ملتا
ستاروں دو گھڑی کے واسطے آنکھیں ہمیں دے دو
زمیں کا یہ عجوبہ ہے مہ کامل نہیں ملتا
جسے وہ مل گیا ہو جس کا وہ طالب تھا دنیا میں
نذیرؔ ایسا کوئی ڈھونڈے سے بھی سائل نہیں ملتا