جو بھی بربادیاں تھیں قضا لے گئی
جو بھی بربادیاں تھیں قضا لے گئی
زندگی اپنا دامن بچا لے گئی
خشک پتے کی صورت میں اڑتا رہا
جس طرف مجھ کو چاہا ہوا لے گئی
چاک دامنی میری گلوں کو ملی
رنگ میرے لہو کا حنا لے گئی
فصل گل میں گلستاں کو کیا مل گیا
گل کو گلچیں مہک کو صبا لے گئی
زندگی زندگی سے گریزاں ہوئی
لطف جینے کا شاید انا لے گئی
اور چاہے ہے کیا مجھ سے دیوانگی
سر سے چادر بدن سے قبا لے گئی
خوب دنیا نے لوٹا ہے مجھ کو مگر
خلق میرا نہ میری وفا لے گئی
تو نے آواز دے کر تماشا کیا
دور تک مجھ کو تیری صدا لے گئی
وہ مسافر ہوں شہر بتاں کا نذیرؔ
چشم بینا مری خاک پا لے گئی