اک برہمن نے کہا ہے میرے حال زار پر

اک برہمن نے کہا ہے میرے حال زار پر
ہو کے مومن مر رہا ہے کیوں بت پندار پر


دیکھ کر بارش کی بوندیں سوچتا رہتا ہوں میں
رو رہا ہے آسماں بھی آج ہجر یار پر


جانے کتنے عاشقوں کی جان کا دشمن ہے یہ
جو حسیں ڈمپل پڑا ہے آپ کے رخسار پر


ہے مریض عشق تو محبوب کے پہلو میں جا
اس مرض کی تو دوا ملتی نہیں عطار پر


یوں لگا اس گل بدن کو آج چھو لینے کے بعد
انگلیاں رکھ دی ہوں میں نے جیسے نوک خار پر


شعر کب میں نے کہے ہیں خون تھوکا ہے بلالؔ
داد تو بنتی ہے صاحب میرے ان اشعار پر