قانون قدرت

جب بھی اس ملک پہ آفت کی گھڑی آئی ہے
آزمائش کوئی جس وقت کڑی آئی ہے


جب ہمیں ان گنت آفات سے ڈر لگتا ہو
اور بگڑے ہوئے حالات سے ڈر لگتا ہو


غم و آلام کی پر ہول گھٹا چھا جائے
سر پہ منڈلاتے ہوں خطرات کے گہرے سائے


جب گھٹا ٹوپ اندھیرے میں قدم چل نہ سکیں
اور جب جادۂ‌ پر خار پہ ہم چل نہ سکیں


دور تک جب کہیں منزل کا پتا بھی نہ ملے
ہم سفر بھی نہ ملے راہنما بھی نہ ملے


کچھ اندھیرے میں سجھائی نہ کہیں دیتا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دکھائی نہ کہیں دیتا ہو


قافلہ قوم کا جس وقت بھٹک جاتا ہو
اور پر ہول اندھیروں میں اٹک جاتا ہو


قافلے والوں کے قدموں کی صدا بھی گم ہو
ایک سناٹا ہو اور بانگ درا بھی گم ہو


آدمیت سے اگر اپنا یقیں اٹھ جائے
اور نیرنگئ حالات پہ دل تھرائے


گنگ جذبات کو جس وقت زباں بھی نہ ملے
نالۂ دل کو کوئی طرز فغاں بھی نہ ملے


روح میں کرب ہو بیتابی و بے زاری ہو
اور ماحول پہ دہشت سی عجب طاری ہو


زہر غم قوم کی رگ رگ میں اثر کر جائے
بے حسی ذہن میں ہر شخص کے گھر کر جائے


الغرض زندگیٔ قوم میں آ جائے جمود
اور پڑ جائے جب اس ملک کا خطرے میں وجود


عین اس وقت کوئی راہنما آتا ہے
آ کے بگڑے ہوئے حالات بنا جاتا ہے