پیار کے بندھن کاٹ رہے ہیں پریم کا رشتہ توڑ رہے ہیں

پیار کے بندھن کاٹ رہے ہیں پریم کا رشتہ توڑ رہے ہیں
شہر محبت کے باشندے شہر محبت چھوڑ رہے ہیں


ارمانوں کے رہواروں کو جانب دنیا موڑ رہے ہیں
الفت کا دم بھرنے والے الفت کا دل توڑ رہے ہیں


اتنا ہم کو علم نہیں تھا ہجر کے صدمے سہنے ہوں گے
یہ قطعاً احساس نہیں تھا کس سے ناطہ جوڑ رہے ہیں


اس بستی میں رہنا بسنا اپنے بس کی بات نہیں ہے
خودداری کی فرمائش پر شہر محبت چھوڑ رہے ہیں


دیکھیں اپنی سرکش توبہ ساتھ ہمارا دیتی بھی ہے
آپ تو نفرت کے پتھر پر جام محبت پھوڑ رہے ہیں


اے پرویزؔ یہ دنیا والے تدبیروں سے غافل ہو کر
قسمت کی دہلیز پہ ناحق اپنے سر کو پھوڑ رہے ہیں