پورا دن اور آدھا میں
وحید احمد کے سحر میں لکھی گئی اک نظم
آنکھ کھلی تو
سلوٹ سلوٹ بستر سے
خود کو چن چن کے
کپڑوں کی گٹھڑی میں باندھا
پیروں کی بیساکھی لی اور باہر نکلے
دفتر کے دروازے پر
اک کاغذ کالا کرنے کے سکے لینے کو دفتر پہنچے
علم کی ردی آدھی بیچی
آدھی بانٹ کے لوگوں پر احسان دھرا
اور اپنا آپ اٹھا کر نکلے
شام ہوئی تھی
قہوہ خانے میں پہنچے تو
کچھ زیادہ چھوٹے سر والے بحث رہے تھے
آدمی آج ادھورا کیوں ہے
ان پر اپنے پورے سر کا رعب جمایا
چبا چبا کے لفظ تھوکتے رات اتاری
محفل جب برخاست ہوئی تو
اگلے دن کے بارے سوچا
اگالدان کو الٹا پلٹا
لفظ اٹھائے
جھاڑ پونچھ کے پھر سے نگلے
ٹھوکر ٹھوکر رستہ چلتے گھر تک آئے
بوتل کھولی
اپنے تن کی باڑ پھلانگی
تیرے نام اک نظم لکھی تو
ہر مصرعے میں اپنی ذات کے ٹکڑے باندھے
تیرے ہجر کی چادر میں ہمیں اپنے ٹکڑے چنتے دیکھتا چاند کبھی کا ڈوب گیا