Salman Haider

سلمان حیدر

سلمان حیدر کے تمام مواد

14 نظم (Nazm)

    جنون

    فضائیں تھک چکی ہیں جسم ڈھوتی گاڑیوں کی سسکیاں اور سائرن کے بین سن سن کے در و دیوار کے نتھنے جھلسنے لگ گئے بارود کی بو سے بدن کے چیتھڑے چن چن کے اب بیزار ہیں گلیاں وہ ملبہ آگ کا چاٹا ہوا ملبہ اکٹھا کرتے کرتے خاک داں تنگ آ چکے ہیں مگر انسان اکتاتا نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    خواہش

    ماہ و سال سے تھوڑا ہٹ کے دشت اور در سے دور ہجر وصال کی زد سے باہر رات اور دن کے پار کبھی فرصت سے مل یار تن کی مٹی جھاڑ دے من مندر کی کھڑکی کھول آوازوں کے جنگل میں کبھی چپ کی بولی بول میری آنکھ کے درپن میں دیکھ اپنا روپ سروپ میرے عشق کے گہنے سے کبھی اپنا آپ سنوار کبھی فرصت سے مل ...

    مزید پڑھیے

    حویلی

    وقت کی ریت کے کچھ آخری ذرے ہیں مری مٹھی میں تن پہ ہر بیتے ہوئے پل کے لیے اک سلوٹ ذہن کے گوشوں میں یادوں کی نمی اور دیواروں پہ دیمک زدہ لمحوں کو لئے چوکھٹوں میں کئی دھندلے چہرے صحن ماضی میں کئی گمشدہ نسلوں کی وراثت کا امیں ایستادہ کوئی بوڑھا برگد فرش پر وقت کے پڑتے ہوئے پیلے ...

    مزید پڑھیے

    ابلاغ: بغیر لفظوں کے ایک نظم

    ایک بے چہرہ خواب ایک بے نام خوشبو میں لپٹا ہوا ایک خوشبو کہ جس نے کوئی رنگ پہنا نہ ہو ایک خاموش لے ایک لے میرے کانوں میں رس گھولتی اپنی عریانیوں میں لپیٹا ہوا ایک سر ایک سر جس کی بنتر میں آواز کی گانٹھ آئی نہ ہو جس کے شفاف تن پر کسی لفظ کا کوئی گہنا نہ ہو لفظ سے ماورا ایک نغمہ کسی نے ...

    مزید پڑھیے

    دیوتا

    میں جانتا ہوں تمہیں مری آرزو نہیں ہے طلب مری آنکھ میں مچل کے ہی اتنی ارزاں ہوئی ہے ورنہ میں اپنے دامن میں ذات کی کرچیاں سمیٹے کھنکتی مسکان بھیک لینے تمہارے رستے میں روز اپنا سوال آنکھوں میں لے کے بیٹھوں یہ خو مری تو نہیں تھی جاناں میں جانتا ہوں تم اس قدر دیوتا تو ہو ہی کہ دل کے ...

    مزید پڑھیے

تمام