پرسش غم کو نہ آ غم کا مداوا ہو جا
پرسش غم کو نہ آ غم کا مداوا ہو جا
مجھ میں دل بن کے دھڑک میرا سراپا ہو جا
پاؤں رکھنے کو زمیں تگ نہ میسر ہوگی
بھیڑ سے اونچا نہ اٹھ بھیڑ کا حصہ ہو جا
عقل کہتی ہے کہ مانگ ان سے وفاؤں کا صلہ
دل یہ کہتا ہے کہ محروم تمنا ہو جا
ٹوٹ ہی جائیں نہ دھرتی سے کہیں سب رشتے
اتنا اونچا بھی نہ اڑ تھوڑا سا نیچا ہو جا
رفعتیں چھو کے دکھا عشق و محبت کی نریشؔ
اس نے اک قطرہ جو مانگا ہے تو دریا ہو جا