پورٹریٹ
’آج وہ اس پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پرجاکر تصویربنائے گا۔ وہ برسوںسے بھٹک رہاہے۔ کبھی نالندہ کے کھنڈروںمیں اورکبھی بودھوںکے پرانے مندرکے اردگرد۔ اس نے راجگیرکے برھما کنڈمیںاشنان کرتی دوشیزائوںکی تصویریںبنائی ہیں توکبھی کشمیرکی پہاڑیوںسے گرتے جھرنوںکی۔ اس کابرش اجنتا کی خوبصورت وادیوںسے بھی آشناہے اور وہ ایلوراکی پتھریلی زندگیوں میں بھی رنگ بھرچکاہے۔‘
اس نے تھیلے میں سامان رکھا، ڈرائنگ بورڈہاتھ میں لیااور گھرسے نکل کرپہاڑکی چوٹی کی طرف نظراٹھاکر دیکھنے لگا۔
’چوٹی پرجمی برف کودیکھنے بہت سے لوگ اوپرچڑھ رہے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ پکوڑوںکے خوانچے اورچائے کی دکانیں ہیں۔ اوپرایک چھوٹاسامیلالگتاہے، جہاں چیزیں بہت مہنگی ملتی ہیں لیکن لوگ سستی چیزیں زیادہ داموں میں خریدکرخوش ہوتے ہیں۔‘
اب وہ چوٹی پرپہنچ گیاتھا۔ اس نے دیکھاکہ جہاںلوگ اپنااپناقیمتی سامان بیچ رہے ہیںاس سے ذراپہلے ایک بوڑھا فقیر پرانااوورکوٹ پہنے ،جوجگہ جگہ سے پھٹ کرگدڑی کی شکل اختیارکرچکاہے ،ایک پیڑکے نیچے بیٹھا ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہاہے۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔‘‘
فقیرہرایک سے سوال کررہاہے مگرلوگ اس کودیکھے بغیرہی برابرسے گزرجاتے ہیں اور وہ ان کے چہروںکواس طرح تکتاہے ،جیسے کہناچاہتاہو۔
’’بابو۔اے بابوادھردیکھ تولے۔‘‘
اس نے اپنی جیب کوٹٹولا۔حالانکہ اسے یقین تھاکہ جیب خالی ہے۔ جیب خالی تھی۔ یہ اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن آج فقیر کوکچھ دینے کی خواہش دل میں رہ ر ہ کر اٹھ رہی تھی۔
لمبی داڑھی اورسفید گھنی بھنویں ۔لمبی لمبی انگلیاں اوران پرابھری نیلی نسیں۔ ’یہ کتنی آرٹسٹک لگ رہی ہیں۔ آرٹسٹک ! نہیں۔۔۔مجھے یہ نہیں سوچناچاہیے۔آخرکتنی مصیبتیں جھیلی ہوںگی اورکتنے فاقے کیے ہوںگے اس بوڑھے فقیرنے، تب اس کی یہ حالت یعنی آرٹسٹک حالت بنی ہوگی۔ کاش اسے کچھ دے سکتا۔ جن کی جیب میں بہت کچھ ہے وہی کون سادے رہے ہیں۔پھریہ دردمیرے ہی دل میں کیوں۔ میری جیب خالی ہے شایداس لیے۔‘
وہ بازارسے گزرتے ہوئے اکثرسوچتاکہ جب اس کی جیب میںپیسے ہوںگے تویہ ڈرائنگ بورڈخریدے گا۔ وہ برش، گھنے بالوںوالابرش بھی لے گا۔ اب اس کے سینڈل بھی پرانے ہوگئے ہیں اوریہ پینٹ کاکپڑا کتناخوبصورت ہے۔ لیکن جب کوئی پینٹنگ بکتی اورجیب بھری ہوتی تو پرانے ڈرائنگ بورڈ اورگھسے ہوئے برش سے ہی کام چل جاتا۔ ’سینڈل اوریہ پینٹ، سب تو ٹھیک ہے ابھی۔ ‘وہ دل میں کہتا اورسینہ چوڑاکیے دکانوں کی طرف بغیردیکھے ہی بازارسے گزرجاتا۔
’توکیا آج بوڑھے فقیرکوکچھ دینے کی خواہش بھی۔۔۔؟نہیں۔۔۔‘ اس کے دل میں چبھن سی ہوئی شایدکوئی وارہواتھا۔ اس کے قدم اچانک رُک گئے اوروہ بوڑھے فقیرکے سامنے سڑک کے اس پارایک بڑے پتھر پربیٹھ گیا۔
’یہ توکچھ اچھے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اس فقیر کوضروردیںگے۔‘
ان کے ساتھ ایک سولہ سترہ سال کی معصوم سی لڑکی بھی تھی۔
’کسی انگریزی اسکول کی اسٹوڈنٹ معلوم ہوتی ہے۔ کتنادردہے اس کی آنکھوں میں اورکتنے غورسے بوڑھے فقیرکو دیکھ رہی ہے۔ ہاںہاں دیکھو، وہ فقیر کے قریب سے گزرنا چاہتی ہے۔ ضرورکچھ دے گی۔‘لیکن جب وہ اس کے قریب سے گزری توناک پررومال رکھتے ہوئے کانوینٹیئن اندازمیں بولی۔
’’اُف ڈیڈی،انڈیاسے یہ بھک منگے کب ختم ہوںگے۔‘‘
ڈیڈی نے فقیرپرحقارت بھری نظرڈالی اورکہا۔’’چلوبیٹی یہ سب ڈھونگی ہوتے ہیں۔‘‘
فقیرکی داڑھی اورمونچھوںمیں چھپے ہونٹوں میں جنبش ہوئی ۔شایدبوڑھے نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔
اس نے بورڈپرڈرائنگ شیٹ لگائی اورایک کٹوری میںبوتل سے پانی نکال کر برش صاف کرنے لگا۔ پھراس نے پوری شیٹ کونیلارنگ دیا۔ ’میں نے شیٹ کو نیلاکیوں رنگا؟‘وہ سوچنے لگا۔
’کیااس لیے کہ نیلارنگ آسمان کی وسعت اورسمندرکی گہرائی کی علامت ہے؟نہیں۔۔۔۔۔۔توپھر؟زہر۔۔۔‘
اس نے نظریں اٹھاکرسامنے بیٹھے فقیرکی جانب دیکھاتولگاکہ بوڑھے کاچہرہ نیلاپڑچکاہے۔ شیٹ پرنیلارنگ کچھ خشک ہواتواس نے سب سے پہلے بوڑھے فقیر کے چہرے میں دھنسی آنکھیں بنائیں۔
’کتنی گہرائی ہے ان آنکھوںمیں۔‘
اس نے فقیر کی آنکھوں میں جھانک کردیکھا توکتنے ہی مفکر، فلسفی اوردانش ورنظر آئے جواس کی گہری آنکھوں کی تہ میں کچھ تلاش کررہے تھے۔
’آنکھوںسے سب کچھ کھرچاجاچکاہے اوراب وہ دھندلی ہوگئی ہیں۔‘
بوڑھی پیشانی پرابھری بے جان شکنیں کسی بلندی پر لے جانے والی سیڑھیاں معلوم ہورہی تھیں۔
’سینکڑوںآرٹسٹ ان سیڑھیوں پربیٹھے تصویریں بنارہے ہیں اورزمانہ ان کے فن پردادلٹارہاہے۔‘
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔‘‘فقیرنے جاتے ہوئے ایک شخص کی طرف دونوں ہاتھ بڑھائے ۔بڑھے ہوئے موٹے موٹے ناخنوں میں بھرامیل،سفیدرونگٹے،ابھری ہوئی نیلی نسیں اورچھپکلی کے پیٹ کی طرح ہتھیلی کی زردکھال ۔محسوس ہواکہ فقیر کے دونوں ہاتھ کسی خوبصورت سفیدشاہی عمارت کے نقش ونگار بنانے میں مصروف ہیں۔
’کتنی کاریگری ہے ان بوڑھے اورلاغرہاتھوںمیں۔‘
اسے لگاکہ بوڑھے فقیرکے دونوں ہاتھ کاٹ لیے جائیںگے۔
’نہیں۔۔۔‘
اوراس نے جلدی سے بوڑھے کے دونوں ہاتھوںکومٹیالے رنگ سے ڈرائنگ شیٹ پربنادیا۔
’چہرہ مکمل ہونے بھی نہ پایاکہ ہاتھ بنابیٹھا!‘
احساس ہواکہ وہ بوڑھے فقیرکی تصویر بڑی بے ترتیبی سے بنارہاہے۔ بوڑھے کی گردن میں اودے رنگ کے پتھروں کی مالاپڑی تھی۔ اس کابرش اودے رنگ میں سن چکاہے، مگراب پتھراپنارنگ بدل رہے تھے۔ اس نے غورسے دیکھا۔’پتھر پھول بنتے جارہے ہیں اورکوئی شخص پھولوںسے لدابوڑھے کے نزدیک کھڑاہے اوربارباربوڑھے کی طرف اشارہ کرتاہے۔ مجمع پھولوں سے لدے شخص کی جے جے کاربولتاہے ،اورجب لوگ اسے اپنے کندھوںپربٹھالیتے ہیںتووہ شخص اس بوڑھے فقیر کی جانب ایک نظربھی نہیں ڈالتا۔‘اس کاگدڑی نمااووَرکوٹ عین ناف کے اوپرسے پھٹاہواتھا۔ کھال سوکھ کرچمڑاہوگئی تھی اور پیٹ کنویں کی طرح اندردھنس گیاتھا۔ اس نے سوچا، دھنسے ہوئے کنویں کورنگوںسے اٹادے مگرلگا کہ اگررنگوں کے گودام بھی خالی ہوجائیں توبھی یہ کنواںنہیں اٹ سکتا۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔‘‘
تصویر بناتے بناتے اس نے آنکھیں موندلیں۔ اپنی ہی آواز گونجی۔’پیسا۔۔۔پیسا۔۔۔ایک پیسا۔۔۔‘اسے یاد آیا پچپن میں جب وہ آنکھیں میچ کرپیسے مانگنے والاکھیل کھیلتا توہمیشہ کوئی بچہ اس کے ہاتھ پرتھوک دیتا۔ اس نے دیکھاکہ بوڑھے فقیر کے پاس سے کوئی بچہ گزررہاہے ۔نہ جانے کیوںلگاکہ بچہ ضروربوڑھے کے ہاتھ پرتھوک دے گا۔ دل دھڑکنے لگااور رگوں میں دوڑتے خون کی رفتارتیز ہوگئی۔ ’خون ۔۔۔۔۔۔سرخ خون۔۔۔۔۔۔‘اب اس نے شیٹ پرچاروں طرف سرخ رنگ پوت دیاتھا۔ رنگ کچھ اس طرح بکھرا کہ شیٹ پربے شمار لال جھنڈے لہراتے نظرآئے۔ اسے لگاکہ بوڑھے فقیرکے دکھ درد کاحل ڈھونڈلیاگیاہے۔ تصویر کوغورسے دیکھا۔ تصویر، بوڑھے لاغر اوربے بس فقیرکی تصویرسرخ رنگ کے دائرے میں کچھ سہم سی گئی تھی۔ آرٹسٹ کی رگوں میں دوڑتے خون کی رفتار دھیمی پڑگئی اوراب اس کے برش کاسرخ رنگ زرد پڑچکاتھا۔ بوڑھے نے پیچھے ہٹ کردرخت کے تنے سے کمرٹکالی۔ درخت پر پھل لٹک رہے تھے۔ اس نے ڈرائنگ شیٹ پر درخت بنایا اورپھلوں کی جگہ بے شمارسکے لٹکادیے۔ ایک سکہ درخت سے ٹوٹا، لیکن جب وہ بوڑھے کے پاس آکر زمین پرگرا،توسکہ نہیں کسی پرندے کا کتراہواکچاپھل تھا۔
اب تصویرمکمل ہوچکی تھی۔۔۔
’’کتنی خوبصورت پورٹریٹ ہے۔‘‘کسی نے کہا۔
’’۔۔۔۔‘‘
’’جی ہاں آرٹسٹ نے کلر کمبینیشن پربہت زوردیاہے۔‘‘دوسرابولا۔
’’یہ آپ کے نئے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں، میں بھی یہی سوچ رہاتھا۔ مگرآئل پینٹنگ ہوتی توزیادہ اچھاتھا۔‘‘
’’لیکن صاحب آئیڈیا دیکھیے ۔وہ دیکھیے وہاں سے کچھ نیچے آکر پیڑسے ٹوٹاہواسکہ کسی پھل کی سی شکل اختیار کرنے لگا ہے اور زمین پرآتے آتے۔۔۔‘‘
’’ہاں بھئی پینٹنگ توبہت اچھی ہے ۔کتنے کی ہے یہ پورٹریٹ؟‘‘
’کتنے بتائوں۔۔۔۔جومانگوںگاوہی ملے گاآج تو۔‘
وہ ذہن میں جودام مقررکرتاوہ کبھی زیادہ لگتے کبھی کم۔ دونوں شخص سامنے کھڑے اس کے جواب کاانتظار کررہے تھے کہ اچانک اس نے کچھ کہا۔کیاکہا؟یہ وہ خود نہیں سن سکالیکن جب سامنے والے شخص نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے اس کی بتائی ہوئی رقم دہرائی تواس نے سوچا۔۔۔
’ایں یہ کیا!میں نے صرف اتنے ہی مانگے!اس سے زیادہ میں سوچ بھی تونہیں سکتاتھا۔ خیراتنے ہی کافی ہیں۔ یہ سب پیسے بوڑھے فقیرکودے دوںگا۔ اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانانہیں پڑے گا۔ ان پیسوںسے وہ کوئی چھوٹاموٹادھنداکر سکتاہے۔ کچھ نہیں توپتھرکی مورتیاں اورمورتیوںکی مالائیں بیچنے لگے گا۔‘
’’یہ لو۔۔۔‘اس سے زیادہ نہیں ۔ابھی توفریم بھی بنواناہے۔‘‘
’نہیں صاحب اس سے کم نہیں۔‘اس نے کہناچاہامگرمنہ سے کچھ نہ نکلااورچپ چاپ دی ہوئی رقم ہاتھ میں تھامے اٹھ کرکھڑاہوگیا۔
’کتناخوش ہوگا بوڑھافقیر۔ اتنی بڑی خوشی زندگی میں پہلی بارملے گی۔‘
جب وہ بوڑھے کے پاس پہنچاتواس نے ہاتھ پھیلاکرسوال کیا۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔ کچھ دیتاجابابو۔۔۔۔‘‘
چاہاکہ جھک کراس کے ہاتھ پرسارے روپیے رکھ دے مگر اس نے دیکھاکہ کچھ لوگ قریب سے گزررہے ہیں۔
اس نے ہاتھ روک لیا۔
’کیاسوچیںگے یہ لوگ۔ سمجھیںگے میں کوئی پاگل ہوں۔‘
وہ وہیں کھڑالوگوںکے گزرجانے کاانتظارکرتارہا۔
’میں یہاںکھڑاہوں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ میں اس طرح کیوںکھڑاہوں شایدوہ سوچ رہے ہوںگے۔‘
وہ دوچارقدم ٹہلتاہواآگے بڑھااورپھرپیچھے لوٹ آیا۔ بوڑھاحیرت زدہ نظروںسے دیکھنے لگا۔
’بوڑھاحیرت زدہ ہے، شاید میں نے فقیرکے ہاتھ پرنوٹوںکی موٹی گڈّی رکھ دی ہے۔‘
اس نے مسکرانے کی کوشش کی اورفقیرکی طرف دیکھا۔ فقیربھی مسکرارہاتھاگویاوہ فقیرنہ ہو قدآدم آئینہ ہو۔
آئینے میں کسی احمق کاچہرہ دکھائی دیا۔
’فقیر پھرمسکرارہاہے، دل ہی دل میں ہنس رہاہے گویاسوچ رہاہوکہ عجب سرپھرا شخص ہے۔‘
اب آرٹسٹ کاحلق خشک ہوگیاتھا۔ بوڑھے نے کھنکاراتواسے لگاکہ بوڑھافقیرقہقہہ مارکرہنس پڑاہے۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔‘‘
فقیر نے ہاتھ بڑھایا ۔ہاتھ خالی تھا۔ آرٹسٹ نے اپنے ہاتھ پرنظرڈالی ،اس کے اپنے ہاتھ میں نوٹوں کی موٹی گڈّی تھی۔ اسے محسوس ہواکہ بوڑھے نے اس کی ذہنی حالت پر ترس کھاکر پیسے لوٹادیے ہیں۔ پل بھرکے لیے لگاکہ وہ خودفقیرکی جگہ بیٹھا بھیک مانگ رہاہے۔ہاتھ خود بخود پیٹ پرپہنچ گیا۔
’بھوک لگ رہی ہے۔‘
بھوک تو اس وقت بھی لگ رہی تھی جب وہ گھرسے نکلاتھا۔
’پہلے چل کر کچھ کھالیاجائے۔ ‘اس نے سوچااورسامنے چائے کے ہوٹل میںگھس گیا۔
ہوٹل کابل چکانے کے بعدباقی روپیوںکوہاتھ میں تھامے ٹہلتاہواپھربوڑھے فقیر کے قریب آن پہنچا ۔فقیرنے کنکھیوں سے دیکھا اورتارتاراوورکوٹ کی جیب کوگھٹنوں میں دباکرمحفوظ کرلیا۔
’کمبخت سوچ رہاہے میں کچھ چھین کربھاگ جائوںگا۔‘
اس نے نفرت سے فقیرکی طرف دیکھا۔ ’وہ اوندھے منہ پڑاتھااوربہت سارے چاندی کے سکّے فرش پربکھرے ہوئے تھے۔ پولیس والوںنے تلاشی لی توگدڑی سے نوٹوںکی گڈیاں نکلنے لگیں۔ اخباروالوں نے فوٹوکھینچے۔ پلیٹ فارم پر بھیک مانگتاتھا۔ نحیف ونزارفقیر ۔۔۔اس بوڑھے سے بھی بدترحالت تھی اس کی۔‘
اب آرٹسٹ کے ہاتھ میں چندروپیے تھے ۔باقی ڈرائنگ شیٹ اوررنگ خریدنے کے لیے جیب میں رکھ لیے تھے اور گھوم کرفقیر کے پیچھے آگیاتھا۔ بوڑھاپہلوبدلنے لگا اوربیساکھی بھی کھسکا کرقریب کرلی۔
’نہ جانے کیاسمجھ رہاہے۔ مگرمجھے اس سے کیاغرض ۔مجھے تواس کی مددکرنی ہے۔ اگرمجبوری نہ ہوتی توپورے پیسے ہی دے دیتا ۔خیراتنے بھی اس کے لیے کافی ہیں۔‘
بوڑھاکھانساتولگاکہ بوڑھاپھرزورسے قہقہہ مارکرہنس پڑاہے۔ اس کاوہ ہاتھ جس میں روپیے تھے لرزگیا۔ یادآیا کہ جب اس نے دودن سے کھانانہیں کھایاتھااوراپنے ایک امیردوست سے کچھ پیسے ادھارمانگنے گیاتھاتوکتنی دیرتک یوں ہی بیٹھا رہا۔ کئی بارمانگنے کی کوشش کی مگرکوئی سہاراہی نہیں مل پایا کہ کس طرح بات شروع کرے۔ کسی امیرسے کچھ مانگنا کتنامشکل ہے۔ کیسی عجیب کیفیت تھی وہ ۔مگرآج کسی غریب کواتنے روپیے دینا ،ٹوٹے سینڈل اورپھٹی پتلون پہن کر اتنے روپیے دینااس مانگنے سے کہیں زیادہ مشکل ہوگیاتھا۔ ایک بارپھر فقیرکوپیسے دینے کی کوشش کی مگرلگاکہ اس کے چاروںطرف بھیڑجمع ہے اور سر پر راجاہریش چندرکامکٹ باندھے اسٹیج پرکھڑاکوئی کرتب دکھارہاہے۔ وہ اپنے آپ سے کشتی لڑرہاتھاکہ اسے ادّی پہلوان یاد آگیا۔
’ادّی پہلوان نے اس رکشے والے کو، جس سے ایک لالاچندپیسوں پرجھگڑا کررہاتھا، کس شان سے ایک بڑانوٹ دیاتھا۔ ’’کیوں جھگڑرہاہے بے ۔یہ لے ۔ یہ عزت دار لوگ کیادیںگے۔ انہیںتوغریبوں کودیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بے عزتی ہوتی ہے ان کی ۔دینے کے لیے ادّی کادل چاہیے۔ ‘‘سچ ہی کہاتھاادّی نے ۔دینے کے لیے ادّی کادل چاہیے۔ علاقے کے بدمعاش ادّی کا۔۔۔‘
ادّی پہلوان نے راجاہریش چندرکواٹھاکر زمین پرپٹخ دیاتھا۔ چاروںخانے چت۔ اس نے گھبراکر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے سے کچھ لوگ آرہے تھے۔
’ارے یہ تووہی لڑکی ہے۔۔۔‘
لڑکی نے اسے فقیرکے قریب کھڑادیکھا تومسکرادی۔
’یہ کیوںمسکرارہی ہے ۔کیااسے معلوم ہے کہ میں فقیرکواتنے پیسے ۔۔۔کیامیں شکل سے احمق معلوم ہوتاہوں؟‘
آرٹسٹ نے نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے کی کوشش کی ،پھربھنویںسکوڑیں اوربولا۔
’’نہ جانے انڈیا سے یہ بھک منگے کب ختم ہوںگے۔‘‘
اب اس کانوینٹیئن لڑکی کے رومال کی خوشبوآرٹسٹ کے جسم میں اترگئی تھی۔ اس نے اپنی مٹھی کے سارے نوٹ جیب میں رکھے اورایک سکہ نکال کربوڑھے فقیرکے ہاتھ پراس طرح ڈال دیاجیسے سکہ نہ ڈالاہوبلکہ تھوک دیاہو۔ فقیر کاہاتھ سکے کے بوجھ سے کپکپانے لگا۔۔۔۔۔۔
’’بابوتیرابھلاہو۔۔۔‘‘
اس نے دیکھاکہ لڑکی کے ڈیڈی اب بھی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہے ہیں۔وہ اس طرح چونکاجیسے ابھی کچھ اور کہنا باقی ہے ،اوربول پڑا۔
’’صاحب یہ لوگ کیساڈھونگ رچائے رہتے ہیں۔۔۔۔‘‘
اوریہ کہتاہوا تیزتیز قدموںسے آگے بڑھ گیا۔۔۔
کچھ دورجانے کے بعداس نے مڑکردیکھا ۔وہ دونوں شخص، جنہوںنے اس کی پورٹریٹ خریدی تھی ،بوڑھے فقیرکے وجودسے بے خبر ،ہنستے ہوئے اس کے سامنے سے گزررہے تھے اوربوڑھاہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہاتھا۔
’’بابوکچھ دیتاجا۔۔۔۔‘‘