بندوق

شیخ سلیم الدین عشاء کی نماز کے بعد حویلی کے دالان میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے ۔ان کابیٹا غلام حیدربھی مونڈھا کھینچ کران کے پاس ہی آن بیٹھا۔ ’’ابّاحضوران دنوں فضاٹھیک نہیں ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ بازار میں کچھ مشکوک چہرے آپ کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ قصبے سے باہر کے لوگ ہیں۔ تیج پالؔ سے آپ کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے تھے۔‘‘
شیخ سلیم اسی طرح حقّہ پیتے رہے، جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
’’عشاء کی نماز گھر ہی پڑھ لیاکیجیے۔۔۔‘‘
اس فقرے پرعام حالات میں وہ برس پڑتے لیکن آج خاموش بیٹھے رہے۔ تھوڑے توقف کے بعد صرف اتنا کہا۔
’’صدردروازہ بند کرلو۔‘‘
یہ کہہ کر شیخ صاحب اٹھے ،حقے کی چلم الٹی اوراپنے بستر پرجاکر لیٹ گئے۔
شیخ سلیم الدین کے مزاج اوراخلاق سے قصبے کے ہی نہیں قرب وجوار کے لوگ بے حدمتاثر تھے ۔ معزز گھرانا تھا۔ چھوٹا بڑاہرشخص ان کااحترام کرتاتھا۔ وہ سبھی کے دکھ درد میں شریک رہتے۔ کسی کوخبر بھی نہ ہوتی اورحاجت مندوں کی ضروریات پوری ہوجاتیں۔ وہ لوگوں کی طرح طرح سے مدد کرتے۔ غریب لڑکیوں کی شادیاں کرواتے، کاروبار شروع کروانے کے لیے پیسوں کاانتظام کرتے ،بچّوں کی پڑھائی کے لیے وظیفے دیتے، غرض یہ کہ انسانوں کے کام آنے میں انھیں ایک خاص قسم کی لذّت کااحساس ہوتا۔ قصبے میں دوسرے بااثرگھرانے بھی تھے۔ کنورماجد علی خاں۔۔۔کیادبدبہ تھا ۔ مرزااکبرعلی خاں۔۔۔بات بات پر بندوق نکال لیتے۔ ڈاکٹرابراہیم۔۔۔پڑھے لکھے تھے، مطب توچلتانہیں تھا مگرقصبے کی سیاست میں اچھاخاصہ دخل تھا۔ یہ سب نعمتیں توشیخ صاحب کومیسّر تھیں نہیں ،ہاں ایک چیز تھی جس سے دوسرے لوگ محروم تھے اوروہ تھی قصبے کے سبھی لوگوں کی محبت ۔یہی وجہ تھی کہ ہروقت ان کی بیٹھک میں لوگ جمع رہتے۔ رمضان کے مہینے میں روزانہ دس بیس آدمی ان کے ساتھ افطار میں شریک ہوتے۔ کچھ لوگ توجگانے کے بہانے آکرسحری بھی ساتھ ہی کرتے ۔مندرمیں کتھا ہو یاہنومان اکھاڑے میں دنگل، چندہ وصول کرنے پنڈت ہرپرشاد سب سے پہلے ان کی چوکی پر پہنچتے۔ ان کاخیال تھا کہ ابتداء شیخ صاحب سے ہو تو چندہ زیادہ ملتا ہے۔ رام لیلا کے لیے گھر کے سارے تخت، جازم اورفرش پورے دس دن کے لیے بڑے مندرپہنچادیے جاتے۔ کیاہندو، کیامسلمان سبھی ان پرجان دیتے تھے اورآج ان کااپناخون کہہ رہا ہے کہ لوگ ان کی جان لینا چاہتے ہیں۔ پہلی بار جب غلام حیدر نے یہ بات کہی تھی تووہ چونک پڑے تھے لیکن فوراً ہی سنبھل گئے۔ اب توجیسے وہ سنتے ہی نہیں ۔کئی روز سے غلام حیدر سمجھانے کی کوشش کررہا ہے:
’’ابّاحضور بندوق خرید لیجیے ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بستی میں سبھی کے پاس ہے ۔کنورماجد علی خاں توآج کل بغیرضرورت ہی بازارمیں بندوق لیے گھومتے ہیں تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ ان کے پاس۔۔۔‘‘
’’اورمرزاصاحب۔۔۔؟
وہ اب روزانہ شکارپر جانے لگے ہیں۔ ڈکٹر ابراہیم نے سیدانوارحسین کوبھی لائسنس دلوادیا ہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘شیخ سلیم الدین نے لمبی سانس لی ،شاید وہ غلام حیدر کی گفتگو کاسلسلہ منقطع کرناچاہتے تھے مگروہ اسی طرح بولتا رہا۔
’’مکرّم یارخاںاپنے کھلیان پرخودجاکرسوجاتے ہیں اورساتھ میں بندوق والے دوپہرے دار بھی ہوتے ہیں۔ ہر شخص وقت کے مزاج کوسمجھ رہا ہے، بس ایک آپ ہیں کہ ۔۔۔‘‘
’’غلام حیدر ،میرے پاس بھی بندوق ہے۔‘‘انھوںنے تلخ لہجے میں کہا ۔
’’آپ کے پاس ؟‘‘
’’تم نے ابھی تک نہیں دیکھی؟‘‘
’’حیرت ہے !‘‘
’’حیرت تومجھے تم پر ہورہی ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے آج تک کبھی چلائی نہیں۔آپ توبندوق پکڑنا بھی ۔۔۔‘‘
’’خیرچھوڑو اس بحث کو۔۔۔‘‘
اوردونوں خاموش ہوگئے ۔کئی دنوں تک اس موضوع پرگفتگونہیں ہوئی۔ لیکن جب پورے علاقے میں دنگا پھیل گیا توشیخ سلیم الدین کاقصبہ نظام پور بھی اس کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ حویلی کے صدردروازے کے موٹے موٹے کواڑوں میں تالاڈال دیاگیا۔ شیخ سلیم الدین کی زندگی میں پہلی بار حویلی کاصدردروازہ دن میں بند ہواتھا۔ غلام حیدر نے خبردی کہ ’’ہمارے سب لوگ بستی چھوڑکر جارہے ہیں۔ کنورماجد علی خاں کی کوٹھی جلادی گئی ہے۔ مرزااکبرعلی خاں کوان ہی کی بندوق سے ہلاک کردیاگیا ہے۔ اور۔۔۔اورساراقصبہ خالی ہوگیا ہے۔‘‘
شیخ سلیم الدین نے بہت مشکل سے اپنے جھکے ہوئے سرکو اوپر اٹھایااورخالی خالی نظروںسے غلام حیدر کاچہرہ گھورنے لگے’’اب کیاہوگا ابّا حضور؟ ہماراتوکوئی سہارانہیں۔ نہ کوئی عزیز ہے اورنہ رشتے دار۔ پورے محلّے میں ہمارااکیلاگھر ہے ۔آپ ہیں کہ ۔۔۔کہتے ہیں ،تم نے دیکھی نہیں۔۔۔
غلام حیدر مستقل بولے جارہا تھا اورشیخ سلیم بالکل خاموش تھے۔ یہ خاموشی کسی گہرے اطمینان کانتیجہ نہیں تھی بلکہ آج ان کے چہرے پر پریشانی کے آثارصاف طورپر نمایاں تھے۔ پہلی بار ان کے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی میںجنبش ہوئی تھی۔
اندھیرا ہوتاجارہا تھا ،سنّاٹے نے خاموشی کے گولے داغنے شروع کردیے تھے اورپوری حویلی خوف وہراس کی دبیز چادرمیں سہمی سمٹی آسمان پرنظریں گڑائے شیخ سلیم الدین کو کوس رہی تھی کہ اچانک پھاٹک پرزورداردھماکہ ہوا۔ شیخ صاحب اچھل پڑے ۔غلام حیدرنے گھرکی عورتوںاوربچّوں کومحفوظ کمرے میں بند کردیا اورخود زینے پرچڑھ کر پیچھے کے راستے گھروالوں کونکال لے جانے کی راہ تلاش کرنے لگا۔
’’مگرجائیں گے کہاں؟ جن کے یہاں جاسکتے تھے ،وہ سب تومارے گئے یاکوچ کرگئے۔‘‘
’’غلام حیدر۔۔۔غلام حیدر۔۔۔‘‘شیخ صاحب نے اپنے بیٹے کواتنی دھیمی آواز میں پکارا کہ غلام حیدر توکیاسنتا ،خود شیخ صاحب بھی اپنی آواز نہ سن سکے۔ لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ خاصے فاصلے پرہونے کے باوجود غلام حیدر نے اپنے بوڑھے والد کی آواز سن لی اورقریب آکر بولا’’آہستہ بولیے ابّاحضور۔۔۔ حویلی کے پچھواڑے کچھ لوگ جمع ہیں۔‘‘ گہری سانس لی اور پھربڑبڑانے لگا۔’’لگتا ہے صبح ہوتے ہوتے ہم سب اسی حویلی میں دفن کردیے جائیں گے۔ بچنے کی کوئی تدبیر نہیں۔‘‘
’’کوئی تدبیر نہیں توپھرصدردروازہ کھول دو‘‘
’’ضرور کھول دیتا اگر اس وقت گھرمیں بندوق ہوتی۔ کوئی آپ کی طرح بھی زندگی گزارتا ہے؟اتنی بڑی جائیداد اور۔۔۔‘‘
’’اچھا حبس بہت ہے ،عورتوں اوربچوں کوجس کمرے میں بند کیا ہے کم سے کم وہ توکھول دو۔‘‘
ایک اوردھماکہ ہوا، جیسے ککیّا اینٹوں سے بنی حویلی کی برسوں پرانی دیوار گرادی گئی ہو۔ سب کے دل دھک سے رہ گئے ۔ عورتیں منھ پر دوپٹے رکھ کر کانپنے لگیں اورگھٹی گھٹی وحشت ناک آوازیں نکالنے لگیں۔ شیخ سلیم الدین نے محسوس کیاکہ عورتوں والے کمرے اورحویلی کے باہر سے آنے والی آوازوں میں بڑی حدتک مناسبت ہے ۔دیرتک یہ پراسرار آوازیں آتی رہیں ۔ انھوںنے اندازہ لگایا کہ جس تیزی سے دیوار گرنے ،درواز ے ٹوٹنے اورزمین کھودنے کی آوازیں آرہی ہیں ،اس حساب سے تواب تک ہم سب قتل کرکے دفن بھی کردیے گئے ہوتے مگر۔۔۔
انھوں نے خود کوٹٹولا، غلام حیدر کودیکھا، عورتوں کی آوازیں سُنیں اورگہری سانس لے کربولے۔’’اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔ اب توصبح ہونے ہی والی ہے۔ غلام حیدر،مؤذّ ِ ن کی کوئی خبر ملی؟‘‘
’’نہیں ،کچھ پتانہیں چلا۔‘‘
’’ایساتوکبھی نہیں ہوا۔‘‘
دونوں تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے، پھر ایک منحوس آواز دونوں نے سنی۔ اس سے پہلے ایسی آواز اپنی پوری زندگی میں انھوںنے کبھی نہیں سنی تھی۔ دل میں تیر کی طرح چبھنے والی آواز ۔
’’یہ کسی منحوس پرندے کی آواز۔‘‘غلام حیدر نے کہا۔
’’ہاں مجھے لگتا ہے تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
’’وہ دیکھیے دیوار کی منڈیر پر ۔‘‘
’’ہاں وہ بیٹھا ہے ،ماردو۔‘‘شیخ سلیم الدین نے بے ساختہ کہا۔
’’مگرکیسے؟ کیاہمارے پاس۔۔۔‘‘
اورشیخ صاحب نے گہری سانس لی۔’’کبھی سوچابھی نہیں تھا اس حویلی کی دیوار پرایک دن کوئی منحوس پرندہ بھی آبیٹھے گا۔ ‘‘
پوپھٹنے لگی تھی، روشنی پھیلتی جارہی تھی مگرپرندہ دیوار پربدستور بیٹھارہا اورجب وہ صاف دکھائی دینے لگا توشیخ سلیم الدین اورغلام حیدر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اورنظریں جھکالیں۔ دراصل یہ ان کاپالتو کبوتر تھا جسے رات غلام حیدر بدحواسی میں دڑبے میں بند کرنابھول گیا تھا۔ اب دھوپ کی کرنیں آنگن میں اترآئی تھیں مگرصدردروازے کاتالا ابھی تک کھلا نہیں تھا۔ جب دوپہر ہونے کوآئی تو غلام حیدر نے کہا۔
’’آپ کہیں توکوئی انتظام کروں؟ ضروری سامان کے ساتھ ہم لوگ دوپہر میں ہی نکل چلتے ہیں ۔ اس طرح اورراتیں گذارنے کی اب ہمّت نہیں۔‘‘
شیخ سلیم الدین خاموش رہے مگرغلام حیدر نے سنا کہ وہ کہہ رہے ہیں ۔
’’ہاںجلدی سے کوئی انتظام کرلو۔‘‘
سورج ڈوب رہاتھا۔ سامنے ہزاروں نکیلے پنجوں والااوبڑکھابڑ اورٹیڑھا ترچھا بھیانک راستہ زمین کے سینے سے چمٹا پڑاتھا۔ غلام حیدر نے خود کوتسلی دی۔
’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ،خطرے سے باہرنکل آئے۔ کوئی اور سواری تو مل نہیں سکی، بھلاہو رام رتن اونٹ گاڑی والے کا کہ اپنی شکرم دے دی۔ رات ہونے سے پہلے ہی نجیب گنج پہنچ جائیں گے ۔نواب صاحب کی گڑھی بہت محفوظ ہے۔ صبح تک وہیں قیام کریںگے۔ اس کے ۔‘‘
’’اس کے بعد۔ ۔۔۔؟‘‘ اوردونوں خاموش ہوگئے ۔ شیخ سلیم الدین نے گاڑی پر رکھے سامان سے ٹیک لگائی ہی تھی کہ غلام حیدر کی نظرداہنی طرف آتی بھیڑ پرپڑی اوروہ سہم گیا۔
’’ابّاحضور۔۔۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ دیکھیے۔‘‘
’’ہاں کچھ دھواں سااٹھ رہا ہے ۔شاید کسی کے کھلیان میں آگ لگی ہے۔‘‘
’’نہیں ابّاحضور بھیڑ ہماری طرف بڑھ رہی ہے ۔لگتا ہے ہماری بستی کے ہی لوگ ہیں۔ نالاپارکرکے آئے ہیں،اسی لیے اتنی جلدی ۔۔۔‘‘
’’آہستہ بولو۔ عورتیں گھبراجائیںگی۔‘‘
’’لیکن وہ لوگ بہت قریب آچکے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر غلام حیدر نے لوہے کی ایک لمبی چھڑ سامان سے کھینچ کر ہاتھ میں تھام لی۔ بیگم صاحبہ نے جب یہ دیکھا تو نہ وہ چیخیں اورنہ گھبرائیں بلکہ اطمینان کے ساتھ کھسک کرشیخ صاحب کے قریب آگئیں۔ بس اتنا کہا۔
’’میں کبھی کچھ نہیں بولی مگرآج۔۔۔‘‘
شیخ سلیم الدین نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا اور ان کی حیرانی لمبے سکوت میں تبدیل ہوگئی۔
’’آگرآپ نے غلام حیدر کی بات مانی ہوتی توآج ۔۔۔‘‘
’’ہاں ابّاحضور،آج اگرہمارے پاس بندوق ہوتی تویہ لوگ۔۔۔‘‘
’’اطمینان رکھو۔‘‘
’’اب ابھی آپ یہ کہہ رہے ہیں، جبکہ ہماری جانیں ہی نہیں عزت بھی ۔۔۔‘‘
’’نہیں غلام حیدر۔۔۔بس اللہ کویاد کرو۔‘‘
یہ کہہ کر شیخ سلیم الدین کچھ وقفے کے لیے چپ ہوگئے، پھر کچھ سوچ کربولے ۔
’’غلام حیدرشاید تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ گاڑی کے چاروں طرف پھیل گئی ۔شیخ صاحب نے دیکھا کہ سامنے وکیل دیانند کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
’’ابّا حضور وکیل صاحب بھی ۔۔۔‘‘
’’یہ کیسے ہوگیا غلام حیدر۔ وکیل صاحب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ٹھیک طرح دیکھو وکیل صاحب ہی ہیں؟‘‘
ٹھیک طرح دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ وکیل دیانند ،سیٹھ دیوی سرن اور پنڈت ہرپرشاد نے شیخ صاحب کے دونوں بازوپکڑکرگاڑی سے اتار لیا۔ غلام حیدر بھی والد کو بچانے کے لیے اتراکہ کچھ لوگوں نے اسے اپنے دائرے میں لے لیا اور ایک شخص نے اونٹ کی نکیل اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ غلام حیدر نے دیکھا کہ اس کے والد قصبے کے معزز لوگوں کی گرفت میں بے بس اورشکستہ شخص کی مانند اس طرح کھڑے ہیں جیسے خود کو پورے طورپروقت کے سپرد کرچکے ہوں۔ وکیل دیانند نے ان کے بازو چھوڑدیے اورہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے۔
’’شیخ صاحب ،یہ آپ کیاکررہے ہیں؟‘‘
سیٹھ دیوی سرن نے جھک کران کے گھٹنے پرہاتھ رکھ دیا۔’’ہماری اوربستی کی عزّت آپ کے چرنوں میں ہے۔‘‘
پنڈت ہرپرشاد نے آہستہ سے کہا۔’’چلیے واپس ۔۔۔ہم آپ کو اس طرح نہیں جانے دیںگے۔‘‘
شیخ سلیم الدین نے آنکھیں بند کرلیں۔
’’ابّاحضور۔‘‘
چونک کرآنکھیں کھولیں۔’’غلام حیدر۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے ،لیکن زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ غلام حیدر بھی خاموش تھا مگراس کی آواز جنگلوں میں ،صحرائوں میں، غاروں اور وادیوں میں، مسجدوں میں، مندروں میں اورکلیسائوں میں ، نالے کے پاربستی کے اجڑے مکانوں میں اوراس کے والد شیخ سلیم الدین کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ وہ خاموش تھااور شیخ سلیم الدین سن رہے تھے ۔
’’ہاں ابّا حضور میں نے دیکھ لیا۔ جسے بچپن سے اب تک نہیں دیکھاتھا اسے دیکھ لیا۔ آپ کی بندوق کو۔ جوایسے وقت کام آئی ،جس نے ایسے موقع پرجان بچائی ،جب ساری بندوقیں اپنے مالکوں کوہلاک کررہی ہیں۔‘‘
’’غلام حیدر چلو۔‘‘کسی نے آہستہ سے کہا۔ نکیل تھامے شخص نے رسی کھینچی ،اونٹ کی گردن گھومی ،شکرم کے اگلے پہیے مڑے اورغلام حیدر نے دیکھا کہ سامنے سیدھا اورہموار راستہ زمین سے گلے مل رہا ہے۔
اورپھر سب لوگ اپنے قصبے نظام پور کی طرف چل پڑے۔!!