باغ کا دروازہ

گرمیوں کی تاروں بھری رات نے گھر کے بڑے آنگن کوشبنم کے چھڑکائو سے ٹھنڈا کردیاتھا۔ جیسے ہی دادی جان نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھی نوروز کود کران کے پلنگ پر جاپہنچا۔ ’’دادی جان جب سبھی شہزادے باغ کی رکھوالی میں ناکام ہوگئے تو چھوٹے شہزادے نے بادشاہ سلامت سے کیا کہا۔۔۔؟‘‘


’’نوروزؔتواب بڑاہوگیا ہے۔ کہانیاں سننا چھوڑ۔۔۔‘‘


’’دادی جان یہ کہانی کہاں ہے، یہ توہمارے ہی شہر کے باغ کاقصہ ہے۔ باغ کوٹھی والاباغ۔‘‘


’’ہاں میرے لال، یہ ہمارے شہر کی بھی داستان ہے اوران شہروں کی بھی جوہم نے نہیں دیکھے ہیں۔‘‘


’’کیاچھوٹا شہزادہ بھی باغ کی رکھوالی میں ناکام ہوجائے گا؟‘‘


’’اچھاسُن۔۔۔ لیکن ہنکارے بھرتے رہنا۔‘‘


’’توچھوٹے شہزادے گل ریز نے بادشاہ سلامت سے کہا۔ باباحضور مجھے بھی ایک موقع دیجیے۔ بادشاہ نے لختِ جگر پر نگاہ کی اوربولے۔ نہیں جان پدر، شرط مشکل ہے اورتوعزیز۔ اگرتیرا پہرابھی ناکام ہوا تواس وطن کے آخری ستارے کوبھی شہربدر ہونا پڑے گا۔۔ شہرخالی ہوچکا ہے۔ تیرے پانچوں بھائی بھی میری آنکھوں کوویران کرگئے ہیں۔ باغ پر کسی دیوکاسایہ ہے جو سخت نگہبانی کے باوجودصبح ہوتے ہوتے سارے چمن کواجاڑدیتا ہے۔ پہرے کی کامیابی پر آدھی بادشاہت دینے کاوعدہ ہے۔ مگرتجھے کیا؟اے میرے خوش بخت فرزند توٗ، توپوری سلطنت کامالک ہے۔ نہیں بابا حضور، میں نے بیڑااٹھایا ہے، اب آپ حکم دیجیے۔ جیسی تیری مرضی، اوربادشاہ نے شہزادے گل ریز کورخصت کیا۔ شہزادے نے اپنے ساتھ ایک چاقو اور شیشی میں پسی ہوئی سرخ مرچیں لیں اورباغ کی سمت روانہ ہوا۔ باغ کے دروازے میں داخل ہو، دروازہ بند کر، پہرہ دینے لگا۔ جب رات آدھی ہوئی اورجھپکیاں آنے لگیں تواس نے چاقو نکال، اپنی کنّی انگلی تراش، اس میں مرچیں بھرلیں۔ نیندآنکھوں سے غائب ہوگئی اور سحرنمودار ہونے لگی۔ اسے یادآیا کہ عرصہ ہوا اس باغ میں ایک فقیرنے ڈیراڈالاتھا اورکسی بات پر خوش ہوکر اس قلندرنے شہزادے کوبتایاتھا کہ اس باغ پرایک دیوکاسایہ ہے۔ جوبھی اس کی پاسبانی کرے گا وہ پوپھٹتے پھٹتے سوجائے گا۔ اگر کسی صورت جاگتارہ جائے تودیوپرفتح پائے گا۔ سوچ ہی رہاتھا کہ دیکھتا کیا ہے، ایک لحیم شحیم دیوباغ کی فصیل لانگ کرداخل ہوتا ہے اورپھولوں کی کیاریوں کوروندتا ہوا پھل داردرختوں پرچڑھ جاتا ہے۔ بس شہزادے نے دیکھااورپلک جھپکتے ہی اس کی دُم سے لٹک گیا۔ دیوڈال ڈال توشہزادہ پات پات۔ دیونے کہا، میں سیر ہوں، شہزادہ بولا، میں سواسیر۔ دیوپلٹا، شہزادہ کود کراس کی پیٹھ پر۔۔۔‘‘


’’سوگیاکیا؟‘‘


’’نہیں دادی جان‘‘


’’اچھاتوسن۔‘‘ اورپھروہ بہت دیرتک دیواور شہزادے کے دائو پیچ بیان کرتی رہیں۔ ’’آخر کاردیوکی ہارہونی تھی سو ہوئی۔ بولاتو جیتامیں ہارا۔ اب مجھے چھوڑ، اس کے عوض تجھے سات بال دوں گا، جووقت ضرورت تیرے کام آئیں گے۔ جب مصیبت پڑے توایک بال جلادینا، باقی بُرے وقت کے لیے رکھ لینا۔‘‘


یہ کہہ کر دادی جان نے اطمینان کی سانس لی، اس کے بعد سانسوں میں آواز پیدا ہونے لگی اوروہ سوگئیں۔ نوروز رات کوکہانی کی اگلی کڑی سنتااوردن میں باغ کوٹھی کے چکرلگاتا۔ یہ سلسلہ کئی روز تک چلتارہا، پھرایک دن نوروزنے دادی جان سے کہا۔


’’آج کہانی پوری کرکے ہی سوئیے گا دادی جان۔‘‘


’’شہزادے نے بادشاہت نہیں لی اوراپنے بھائیوں کی تلاش میں راج پاٹ چھوڑ کر چل پڑا۔ بھائی ملے مگر مارے حسد کے اسے سائیس بناکر رکھا۔ بھائی سویرے نکلتے شام کو لوٹتے اور بہت فکرمند رہتے۔ ایک شب بھائی سمجھے وہ سوگیا ہے مگروہ جاگ رہاتھا، بھائیوں کو کہتے سُنا کہ آج پھرمنادی ہوئی ہے کہ جو شخص برج کی محراب میں بیٹھی شہزادی گلشن آراکو محل کے پہلے دروازے سے پھولوں کی گیند مارنے میں کامیاب ہوجائے گا وہ اسی کے ساتھ شادی کرے گا۔ اشتیاق بڑھا، چھپ کر بھائیوں کے پیچھے پیچھے چل دیا اور یہ ماجرادیکھا کہ دوردراز ملکوں سے آئے شہزادے اپنی اپنی قسمت آزمارہے ہیں مگرشہزادی جس بارہ دری میں بیٹھی ہے وہاں ہواکچھ اس رخ سے چلتی ہے کہ شہزادی تک گیند کاپہنچانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسے طلسمی بالوں کاخیال آیا۔ ایک بال جلادیا، سبز گھوڑا سبز جوڑا تیار اورپھولوں کی ایک گیند جوشہزادے کے اشارے کی تابع دار تھی، ہاتھ میں آگئی۔ کامیابی ملی، مگروہ گھوڑے کولے کرنظروں سے اوجھل۔ دوسرے دن سرخ جوڑا، سرخ گھوڑا اورگیند۔ گل ہزارہ کی گیند شہزادی گلشن آرا کے رخ روشن کو چھوتی اوربکھرجاتی۔ یہ سب اس طرح ہوتاجیسے بجلی کوند گئی ہواور دیکھتے ہی دیکھتے شہزادہ نظروں سے غائب۔ ساتویں روز سفید جوڑاپہنے سفید گھوڑے پرسوار ہوکرجب وہ گیند مارکرفرارہواتو شہزادی کے منصوبے کے مطابق اس کے داہنے پیرکومحل کے سپاہیوں نے زخمی کردیا۔ بس شہر بھر میں زخمی پیروالے شخص کی تلاش شروع ہوئی اورایک سرائے کے پچھواڑے سائیس کے بھیس میں شہزادہ گرفتار ہوا۔ شہزادی کی ضد کے نتیجے میں شادی توہوگئی مگربادشاہ سلامت کوکم رتبہ رشتہ پسند نہیں آیا۔ دونوں کودودھڑی اناج اورایک اشرفی دے کرسلطنت سے نکال دیا۔ ان دونوں نے ایک دنیابسائی۔ دنیابسانے کاوہی پراناطریقہ۔ ایک اشرفی کے کچھ چاول، کچھ ریشم کے دھاگے، کچھ زری کے تاراورکچھ اوزار۔ چاول کے دانے میدان میں ڈالے۔ رنگ برنگی چڑیاں آئیں۔ پرٹوٹے، ان کوسمیٹ کر پنکھا بنایا۔ شہزادہ بازارمیں بیچ آیا۔ پھرچاول کے دانوں، ریشم کے دھاگوں اورزری کے تاروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ہرروز کئی کئی پنکھے تیارہونے لگے۔ پھر فرشی پنکھے، چھت سے لٹکنے والے پنکھے اور دیوار کے قالین بننے لگے۔ کاروبار بڑھاتوایک گڑھی نما قلعہ بنوایا، یوں ان کی دنیاآباد ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کی اورپھر ایک باغ لگایا۔‘‘


’’بس دادی جان۔ آگے کاقصہ مجھے معلوم ہے۔‘‘


’’تجھے کیسے معلوم؟‘‘


’’ہمارے ہی شہرکی توکہانی ہے۔ باغ کوٹھی کے دربان شیزفام نے مجھے سنائی تھی۔ اوردادی جان وہ کہانی میں نے رات میں نہیں دن میں سنی تھی۔‘‘


دادی جان کواطمینان ہوگیا، وہ سوگئیں لیکن نوروزؔجاگتارہا اورآج وہ برسوں بعد سوچتا ہے کہ اس نے دادی جان سے جھوٹ کیوں بولاتھا۔ کیاوہ آگے کی کہانی سننا نہیں چاہتا تھا؟ مگرکیوں؟ شاید اس لیے کہ گلشن آرا کے لگائے ہوئے باغ کی کہانی وہ سننا نہں دیکھنا چاہتاتھا۔ اورباغ لگتے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھااوراب اجڑتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے۔ یہ باغ ہزاروں سال میں لگ پایا تھا، نوروزؔ کی آنکھیں اس کی گواہ ہیں۔ ہزاروں سال پرانی آنکھیں۔ ایک ایک پودا اس کے سامنے لگا ہے اورایک ایک پھول اس کی آنکھوں کے آگے کھلا ہے۔ یہ باغ نہیں مختلف پھولوں سے بنی شہزادہ گل ریز کی گیند ہے جوگلشن آرا کے رخ روشن سے ٹکراکر بکھرگئی ہے۔


نوروزؔ کادنیادیکھنے اور زندگی کوسمجھنے کایہ طلسمی اندازواقعات کویوں دیکھتا ہے۔ ایک روز کاواقعہ ہے کہ شہرمیں نٹوں کی ایک ٹولی داخل ہوئی۔ ایک نوجوان نٹ اس کی نہایت ملوک نٹنی نے اعلان کیا کہ وہ نقلی پرلگاکر دوکوس تک اڑسکتے ہیں۔ بس لوگ جمع ہونے لگے۔ اس کی خبر گڑھی کی بالائی منزل پرشہزادی گلشن آرا کے کانوں تک پہنچی۔ شہزادی نے نٹ کے اس جوڑے کو بلوا بھیجا۔ کرتب شروع ہوا۔ مشرقی برج سے چھاج کے نقلی پرلگاکر دونوں اڑے۔ دوکوس کادعویٰ تھا، ڈھائی کوس تک اڑتے رہے اورپھر جب گرے توخداکاکرنا، دونوں نے وہیں دم توڑدیا۔ شہزادی گلشن آرا پالکی میں سوار ہوکر جب وہاں پہنچیں تودیکھتی کیا ہیں کہ وہاں نہ کوئی نٹ ہے اورنہ نٹنی۔ لاش کاکہیں پتانہ تھا۔ بس دوپھول کھلے ہوئے تھے۔ رنگ ان کاایساکہ دنیامیں مثال نہیں۔ شہزادی گلشن آرانے حکم نامہ جاری کیاکہ یہاں ایک ایساباغ لگایا جائے جس میں دنیابھر کے نایاب ونادر پھول، طرح طرح کے پھل اوربے شمارخوبصورت درخت ہوں۔ باغ کی چہاردیواری ایسی ہوکہ جس میں ہزار دروزاے ہوں اورسارے دروازے سبھی کے لیے کھلے رہیں۔ باغ کی پہرے داری گل صد برگ کریں اوران کی سواری گل گوں ہو۔ شہزادی کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ پہلے تمرہندی، برگد، پیپل اور املتاس کے درخت لگائے گئے اورپھردرمیانی روشیں مولسری، آبنوس اورصنوبر کے درختوں سے آراستہ کی گئیں۔ باغ کے وسط میں ایک عالی شان عمارت تعمیر کی گئی جوباغ کوٹھی کے نام سے مشہور ہوئی۔ لوگ مختلف ممالک سے آتے، اپنے ساتھ نایاب قسم کے پودے لاتے اورباغ کوٹھی میں قیام کرکے محسوس کرتے گویاباغ میں نہیں شہزادی گلشن آراکے دل میں قیام پذیر ہوں۔ کچھ آنے والے کوہِ قاف کوعبور کرکے آئے توکچھ سمندرکے راستے۔ دوردورتک اس گل کدے کی شہرت تھی۔ لوگوں کی آمد کاسلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ اب گل دائودی، گلِ رعنا اورگلِ آفتاب کے ساتھ ساتھ کرسمس ٹری، پام کے درخت اورمنی پلانٹ کی بیلیں بھی اس چمن زارمیں دکھائی دینے لگی تھیں۔


پھرکیاہوا، کیسے ہوا کہ باغ اجڑنے لگا۔ نوروزؔ بستر پرلیٹا سوچ ہی رہاتھا کہ گلیا رے میں ایک شوراٹھا۔ بیٹھک کی کھڑکی کھول کر دیکھا کہ باغ کی پاسبانی کاعزم لیے کچھ لوگ نعرے لگاتے گلی سے گزررہے ہیں۔ وہ بھی چبوترے پرنکل آیا اورہجوم کے سنگ سنگ چلنے لگا۔ پھراس نے جانا کہ بھیڑ باغ میں داخل ہوچکی ہے اوروہ تنہا دروازے کے باہر کھڑا رہ گیا ہے۔ نظریں اٹھائیں تو پایا کہ اب فصیل مزید اونچی کردی گئی تھی اور اس کے تمام دروازے پتھروں سے چُن دیے گئے تھے۔ صرف صدردروازہ کھلا تھا، جس پرسیاہ وردی پہنے سپاہی آبنوس کے درختوں کی طرح جامدوساکت کھڑے تھے۔ اندرجانے کی کوشش کی، پراسے یہ کہہ کرروک دیاگیا کہ ابھی اجازت نہیں۔ کارروائی شروع ہوچکی ہے۔


دوسرے روز سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ باغ کی طرف روانہ ہوگیا۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ جہاں مولسری اورصنوبر کے شجرتھے وہاں ببول کی کانٹے دارجھاڑیاں اگ آئی ہیں۔ حوض جس میں ہرپل فوارہ چلتا رہتا تھا اسے بارش کے پانی اورکائی کی پرتوں نے مینڈکوں کامسکن بنادیا ہے۔ سامنے نگاہ کی توکھلاکہ باغ کوٹھی کے کھنڈر دم سادھے کھڑے ہیں۔ کوٹھی کی بلند محراب کی طرف گردن اٹھائی تو اندھیرے میں ڈوبے آسمان کا عکس نظرآیا۔ محراب ٹوٹ کر گرچکی تھی اورستون سرنگوں تھے۔ وہ بڑھتا رہا اور آگے بڑھتا رہا کہ ایک پتھر سے ٹکراکر اوندھے منہ آگرا۔ کانپتی انگلیوں سے ٹٹولا تو دوقبروں کے نشان پائے اسے معلوم ہے یہ قبریں شہزادہ گل ریزؔ اورشہزادی گلشن آرا کی ہیں۔ اب سورج آسمان پرپائوں جماچکا تھا۔ صدردروازے کے باہر ہجوم جمع ہونے لگا۔ نوروز اٹھااور باغ کوٹھی کے کھنڈر کی ایک دیوار کے پیچھے چلاگیا اورسوچنے لگا۔ نگہ داشت کی تمام کوششیں جاری ہیں، پھرآخریہ باغ روز بہ روز کیوں ویران ہوتا جارہا ہے؟باہر ایک ازدحام ہے اور گشت پہلے سے زیادہ سخت۔ ’’کیاہزاروں سال پرانا دیوپھرسے۔۔۔‘‘


ایک شوراٹھا اوربھیڑاندرداخل ہوگئی۔۔۔ کچھ لوگ حوض کے چبوترے پر، باقی حوض کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ چبوترے پرایک شخص کھڑاہوااورکہنے لگا۔ ’’باغ کی حفاظت کی ذمہ داری اب ہماری ہے۔ صدردروازے کوبھی باقی دروازوں کی طرح بند کردینا ہوگا۔‘‘


مجمع سے ایک آواز ابھری۔۔۔ ’’باہر سے کسی کوآنے کی اجازت نہیں ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دامن سمیٹ لیا اوربیٹھ گیا۔


چبوترے پرکھڑا شخص پھربولا۔۔۔ ’’یوں توہم نے صدیوں سے اس باغ میں کسی گل ریز اورکسی گلشن آرا کونئی قسم کاکوئی بھی پودالگانے نہیں دیا ہے، کیونکہ ہرنیاپودا پرانے پودے کو غارت کردیتا ہے۔ چہاردیواری کے باہر سے لائے ہوئے پودے لگا کر باغ کی فضاکوآلودہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘


نوروزؔ دیوار کی آڑ میں کھڑا حیرت سے سن رہا تھا۔ ’’نئے پودوں کی آمدپربندش؟ کہیں باغ کے ویران ہونے کی یہی وجہ تو نہیں۔ ہاں یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے باغ اجڑاہی نہ ہو بلکہ نئے پھولوں کے نہ کھلنے اورنئے پھلوں کے نہ پھلنے کے سبب دنیا کے دوسرے باغوں کے مقابلے میں اجڑتا ہوا سامحسوس ہورہاہو۔‘‘


اب اس نے دیکھا کہ چبوترے پر کوئی دوسرا شخص آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ اس شخص نے شلو کے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور مسکراتے ہوئے باغ کے چوتھے کھونٹ کی طرف اشارہ کیا، جیسے اس نے رکھوالی کاکوئی کارگرطریقہ ڈھونڈ نکالا ہو۔ دیوار کے پیچھے سے نوروزؔ نے جھانک کر دیکھا اور ششدر رہ گیا۔ وہاں سے گل رعنا، گل جعفری اور گل سوسن کے پودے اکھاڑدیے گئے تھے۔ ہاں کیتکی اورناگ پھنی کے پودے قطاروں میں اسی طرح لگے ہوئے تھے۔


’’باغ کی صفائی کے نام پر خود روگھاس سمجھ کر ان لوگوں نے سب پودے اکھاڑ پھینکے۔ گلِ سوسن بھی!‘‘ اس نے چیخ کر کچھ کہنا چا مگراب اس کی زبان پوری طرح گُنگ ہوچکی تھی۔ کیوڑے کی جھاڑیوں سے ایک سانپ نکلااور گلِ شب افروز کے جھنڈ سے ہوتاہوا بھیڑمیں شامل ہوگیا۔ کچھ لوگ بلّم بھالے لے کر دوڑے اورسانپ مارنے کے بجائے گلِ شب افروز کے پودوں کو جڑسے اکھاڑنے لگے۔ اب حوض پرکھڑاوہ شخص کہہ رہاتھا کہ۔۔۔ ’’بے کار اوربے میل پیڑ پودے اکھاڑ پھینکو۔ برگد کی صف میں برگد اورپیپل کی صف میں پیپل۔ پلکھن، چیڑ، ساکھوااور بس۔۔۔‘‘ اس کی بات ادھوری ہی تھی کہ بغیر کچھ سوچے، بغیر کچھ سمجھے بھیڑ چاروں طرف بکھر گئی اور پلک جھپکتے خیار شنبر، پام اور ایروکیریا کے درخت بھی اُکھاڑ پھینکے۔


’’اے خدا یہ باغ کی زیبائش کاکون ساطریقہ ہے؟ اے میرے پاک پروردگار کیااب اسے بچانے کی کوئی تدبیر نہیں۔ اے قادرمطلق کوئی ترکیب بتا۔ ہاتھ میں چاقو اورسرخ مرچوں کی شیشی لے کر کسی شہزادے کوبھیج۔‘‘ اتنے میں دیکھتا کیا ہے کہ کچھ نوجوان ایک ہاتھ میں چاقواوردوسرے ہاتھ میں شیشی لیے باغ میں داخل ہوئے۔ وہ سب پہرے کے لیے باغ کے کونے کونے میں منتشر ہوناہی چاہتے تھے کہ ایک بوڑھا شخص سامنے آکرکھڑا ہوگیا۔


’’دیکھو میرے چہرے پر یہ جھریاں دیکھو۔‘‘ پھراس نے کنّی انگلی کازخم دکھایا اور رقّت آمیز لہجے میں بولا۔ ’’میں یہ ترکیب صدیوں سے آزماتاآرہاہوں۔ کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تدبیراب کارگرنہیں رہی۔ اب کوئی دیوباغ کی دیوارپھلانگ کر اسے اجاڑنے کے لیے باہر سے نہیں آتا، اس کے اجڑنے کاسبب کچھ اورہے، توظاہر ہے نگہبانی کی تدبیر بھی کچھ اورہی ہوگی۔‘‘ اتنا سننا تھا کہ مجمع پر سکتہ ساطاری ہوگیا اورپھرایک ایک کرکے سب واپس ہولیے۔ وہ بھی جوبعد میں آئے تھے اوروہ بھی جوحوض کے گرد جمع تھے۔


ایک روز پھرشہر میں ڈگی پٹی، اعلان ہوا کہ ’’باغ کی حفاظت کے تمام حربے آزمائے جاچکے ہیں مگرہربار ناکامی ہاتھ آتی ہے۔ باغ متواتر ویران ہوتاجارہا ہے۔ ہرخاص وعام کو مطلع کیاجاتا ہے کہ سورج طلوع ہونے سے قبل باغ کے صدردروازے پر پہنچے۔‘‘ سورج طلوع ہونے میں ابھی دیر تھی۔ صدردروازہ بندتھا۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوچکے تھے۔ نوروزؔ بھی ہزاروں سال پرانی آنکھوں میں ویرانی لیے وہاں موجود تھا۔ دروازے پر بڑی سینی میں چاندی کے ورق میں لپٹا ایک بیڑا رکھا تھا۔ ایک جمّ غفیر تھا مگرخاموش۔۔۔ ’’توکیا اسی طرح لوگ شام ہوتے ہوتے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے؟‘‘ آخر کار شام بھی ہوگئی۔ دن بھر کی گرم ہوا نے سینی میں رکھے بیڑے کوجھلسا دیا۔ لگتاتھا کہ ایک جھٹکے کے ساتھ لوگ پلٹیں گے اورواپس شہر کی طرف دوڑ پڑیں گے کہ اچانک مجمع سے ایک آواز آئی جیسے بجلی چمکی ہو اورپھربادل گرجنے لگے۔ مجمع کو چیرتا ایک بوڑھا، اپنی جھولی کوبغل میں دبائے صدردروازے کی طرف بڑھتا چلاآرہاتھا۔ نوروزؔ نے پہچاننے کی کشش کی۔ ’’کیایہ گل ریز ہے؟نہیں۔ توپھرشاید نوروز۔ نہیں۔ میں تویہاں کھڑاہوں اگراس وقت میرے چہرے کے سامنے آئینہ ہوتا توضرور اس بوڑھے کو قریب سے دیکھ پاتا۔‘‘ اس نے تھوڑاآگے بڑھ کر پہچاننے کی کوشش کی۔ ’’ارے یہ تووہی بوڑھا ہے جس نے کنی انگلی کا زخم دکھاکر مجمع کوواپس کیاتھا۔ اس دن یہ کتنا مایوس تھا مگرآج اس کے چہرے پر یہ چمک؟ شاید میری آنکھوں کی چمک ہو‘‘۔ پھر کیا تھا، بوڑھے نے بیڑااٹھا یا اورآسمان کی طرف دیکھ کر منہ میں رکھ لیا۔ لوگ مضطرب تھے، شایددیکھنا چاہتے تھے کہ اس کی جھولی میں کیا ہے؟ بوڑھے کی تجربے کارآنکھیں مسکرائیں۔ اس نے جھولی میں ہاتھ ڈالا، سب سے پہلے جوچیز نکلی وہ گلِ ہزارہ کی ایک خوبصورت گیند تھی۔ پھول کی اس گیند کے چاروں طرف نیلوفر، نسترن اوریاسمین کی پتیاں گُندھی ہوئی تھیں۔ اس جھولی سے پھرایک تیشہ نکلا۔ نوروزؔ نے دیکھا کہ تیشے کی نوک پرفصیل کے تمام بنددروازوں کوتوڑنے کا عزم چمک رہاتھا۔


’’سب سے پہلے باغ کے تمام دروازے کھولنے ہوں گے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ نوروز کچھ اورآگے بڑھ گیا۔ باغبانی کے اوزار اورکچھ نایاب ونادر پھولوں کے پودے دیکھ کر وہ بوڑھے کے بالکل قریب جاپہنچا، اتناقریب کہ شاید دونوں میں اب کوئی فرق نہ رہاتھا۔


لوگ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ایک آواز آئی۔


’’رکھوالی کایہ کون ساطریقہ ہے؟‘‘


بوڑھے نے اس طرف دھیان نہیں دیا اورنرمی سے کہا۔ ’’آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ سب اپنی اپنی مٹھیاں کھول دیں۔‘‘


سب نے بند مُٹھیاں کھول دیں، پھر صدردروازہ کھلا، بوڑھا باغ میں داخل ہواہی چاہتاتھا کہ ٹھٹھکا، پلٹ کر نوروز کی طرف آیا اوربولا۔ ’’ممکن ہے میں باغ کی نگہبانی میں کامیاب ہوجائوں۔ ممکن ہے باغ پھرسے سرسبز ہوجائے۔ ممکن ہے اس گلستاں کادامن بہت وسیع ہوجائے مگراس کی کیاضمانت ہے کہ یہ باغ پھرنہیں اجڑے گا۔‘‘ نوروز یہ سوال سن کر بوڑھے کے قدموں میں گرگیا۔ بوڑھے نے جھک کراسے اٹھایا اورجھولی میں ہاتھ ڈال دیا۔ سب تعجب سے دیکھ رہے تھے کہ اب جھولی سے کیا نکلتا ہے۔ اس نے جھولی سے سیاہ دستے اورتیز دھاروالی کوئی شے نکال کر نوروز کے ہاتھ میں تھمادی۔


’’شاید چاقو ہے!لیکن مرچوں کی شیشی؟‘‘ نوروز سوچ ہی رہاتھا کہ بوڑھے نے پھر جھولی میں ہاتھ ڈال دیا اورایک شیشی نکال کر نوروز کودی اورکہا۔ ’’اگرتواس کا صحیح استعمال کرے گاتویہ باغ قیامت تک شاداب وسرسبز رہے گا، لیکن۔۔۔‘‘ اس نے ’لیکن‘ سے آگے کچھ کہنا چاہا مگرپھر ’لیکن‘ کے سواکچھ نہ کہہ سکا اور مجمع کی طرف دیکھ کر مایوس ہوگیا۔


نوروز نے دونوں چیزوں کودیکھا۔ ان میں نہ کوئی چاقو تھااورنہ مرچوں کی شیشی۔ اس نے پھرغورسے دیکھا اورسیاہ مگر روشن رقیق سے لبریز شیشی کے ڈھکن کوکھولا اورتیز دھاروالی چیز کے ایک سرے کوداہنے ہاتھ کے انگوٹھے اوردوانگلیوں کے پوروں کے درمیان دباکر شیشی میں ڈبودیا۔ ایساکرتے ہی اس کے چہرے سے دانش وری کی شعاعیں پھوٹنے لگیں اورباغ کی فصیل پرایک تحریر ابھرآئی۔ نوروز کے ذہن کے تارجھنجھنانے لگے۔ آسمان کی جانب نظریں اٹھائیں تودیکھا کہ ایک پریوں کی شہزادی، ماتھے پر نقرئی تاج، ہاتھ میں قدیم سازہنس پرسوار، باغ کے دروازے کے بہت قریب سے گزررہی ہے۔


یہ ماجرا نوروز اوربوڑھے کے سواسب کی نگاہوں سے پوشیدہ رہااور پھریوں ہوا کہ جس نے بوڑھے کودیکھا وہ نوروز کو نہیں دیکھ سکا اورجونوروز دیکھ رہاتھا اس کی نظروں سے بوڑھا غائب تھا۔