شیشے کی کرچیں
وارڈ کے سب مریض گہری نیند سوتے رہے اوروہ صبح کے انتظارمیں رات بھر کروٹیں بدلتارہا۔ صبح ہوتے ہی مریمؔ اپنی ٹیم کے ساتھ سفید ایپرن پہنے، گلے میں آلہ لٹکائے آہستہ سے آئے گی اورپوچھے گی ۔
’’کوئی پرابلم ؟‘‘
’’جی نہیں ڈاکٹر ۔۔۔‘‘وہ ہمیشہ یہی کہتا لیکن مریمؔ اس جواب سے کبھی مطمئن نہین ہوتی اوربیڈ سے لٹکی کیس شیٹ پڑھنے لگتی ۔انویسٹی گیشن رپورٹیں ،ٹیمپریچر چارٹ اورٹریٹمنٹ کارڈدیکھتے وقت اس کے چہرے پر بے چینی کے آثارتھرمامیٹر کے پارے کی طرح بڑھنے گھٹنے لگتے ۔ جس دن اپناہاتھ اس کے ماتھے پررکھ کر دھیرے سے آنکھوں پر لے آتی تووہ سمجھ جاتا کہ آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ مریمؔ کے ہاتھ کی نرمی اورسختی سے اپنی حالت کااچھی طرح اندازہ لگانے لگاتھا۔
’عجیب مرض ہے، جوں جوں بڑھتا ہے ،تکلیف کا احساس مٹتا جاتا ہے۔ مریم بھی کچھ نہیں بتاتی۔۔۔وہ ہمیشہ خاموش رہتی ہے مگرہربار لگتا ہے کہ کچھ کہناچاہتی ہے۔
سچ ۔۔۔؟
لیکن مجھ سے آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔میری ماں نے بھی نہیں۔ باپ کو تو خیر میںنے دیکھا ہی نہیں۔ اب ماں کی شکل بھی دھندلی ہوتی جارہی ہے۔ کس کس طرح سے میں نے ان آنکھوں کوسلامت رکھا ہے۔ میں دنیا کو پہچانتا ہوں مگردنیا مجھے نہیں پہچانتی ،سوائے مریم کے۔ وہ مجھے دیکھتی ہے ،ماتھے پرہاتھ رکھتی اور کچھ کہنابھی چاہتی ہے ۔آخر کیاکہنا چاہتی ہے وہ ۔۔۔؟‘
’’وہ ۔۔۔وہ‘‘۔لگاتار’’وہ۔۔۔وہ ‘‘اورپھرایک ہی تال پر ’’وہ۔۔۔وہ‘‘ کا طویل سلسلہ ۔گویا اس کے سینے میں دل نہیں ’’وہ‘‘ دھڑک رہی ہو۔
’’اگراس نے کچھ کہہ دیا تو ۔۔۔‘‘
’’توکیا؟یاتومیں ٹھیک ہوجائوں گا ،یاپھراسی وقت مرجائوںگا۔‘‘
’’تومیرے مرنے کے ساتھ ہی وہ بھی مرجائے گی؟وہ جوایک آواز ہے۔ وہ جومیرے سینے کے اندر ہے۔‘‘اس نے زورسے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔
صبح ہوگئی تھی ۔وارڈ بوائے نے مریضوں کوناشتہ دینا شروع کردیاتھا۔ ماحول اداس اورفضاخاموش تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ سارے مریض اسی طرف دیکھ رہے ہیں، حالانکہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ کوئی ناشتہ کررہاتھا، کوئی ابھی تک چادر تانے سورہاتھا توکوئی وارڈ میں بے مقصد ادھراُدھر ٹہل رہاتھا کہ ایک زوردار چھناکاہوا ۔آج پھراس سرپھرے مریض نے چائے پی کرگلاس دیوارسے دے ماراتھا۔ چاروں طرف شیشے کی کرچیں بکھرگئی تھیں۔ وہ دورلیٹا یہ منظر دیکھتا رہا، پھر لیٹے لیٹے نظروںسے کرچوں کوسمیٹنا شروع کیا تواسے لگا کہ وہ شیشے کی کرچوں کونہیں اپنے بکھرے ہوئے وجود کوسمیٹ رہا ہے ۔۔۔ اتنے میں ڈاکٹر مریم کیبن سے نکل کر سرپھرے مریض کے پاس آن کھڑی ہوئی۔
’’ڈاکٹرمجھے کیاہوجاتا ہے؟‘‘
’’کوئی بات نہیں ۔ڈاکٹر رابرٹ رائونڈ پر آرہے ہوںگے ۔شاید کوئی دوابدلیں۔‘‘ڈاکٹرمریم نے مریض کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر اس کاجی چاہا کہ وہ بھی سائڈ ریک پر رکھا گل دان دیوارسے دے مارے اور ۔۔۔مگر وہ ایسا نہ کرسکا، کیونکہ اسی لمحے ڈاکٹرمریم کی نظر اس پرپڑگئی اوروہ قریب آکر بولی ۔
’’تم ٹھیک ہوجائو گے ۔مسٹر۔۔۔‘‘نام دیکھنے کے لیے کیس شیٹ پر نظرڈالی۔
’’مریم تو دوسرے ڈاکٹروں سے الگ ہے پھر بھی نام ۔۔۔؟
’’ہاں تم بالکل ٹھیک ہوجائو گے ۔‘‘ ڈاکٹرمریم نے پھر کہا اورخاموشی سے چلی گئی۔
’’میں اس کامطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔بالکل ٹھیک ہوجائوگے یعنی جلد ہی مرجائوگے ،بس چند روز اور۔۔۔‘‘
ڈاکٹر رابرٹ رائونڈ پر آگئے تھے ۔مریمؔ بھی ان کے ساتھ تھی ۔
’’وہ کسی بھی مریض کودیکھ رہی ہوایک اچٹتی سی نظرمجھ پر ڈال لیتی ہے۔ اب وہ لوگ ادھر ہی آرہے ہیں ،مریم کی چال دھیمی کیوں ہونے لگی۔۔۔؟ارے وہ تواپنے کیبن میں جارہی ہے۔ کیامیرے پاس نہیں آئے گی۔ جاتے جاتے ایک بارپھر اس نے مجھے دیکھا ہے۔ میں جانتا ہوں جس کے بچنے کی امید نہیں ہوتی، وہ اس کے پاس آناکم کردیتی ہے۔ ابھی تک اس کادل ڈاکٹروں کے دل کی طرح سخت نہیں ہوپایا ہے۔‘‘
ڈاکٹر رابرٹ ایک ایک کرکے مریضوں کودیکھتے ہوئے اس کے بستر کی طر ف بڑھ رہے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ جب ڈاکٹر رابرٹ کسی مریض کی تمام رپورٹیں ، ایکس رے پلیٹیں اورپوری کیس ہسٹری اپنی ٹیم کے سارے ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں ،کچھ دیر سمجھاتے ہیں اورپھرٹھنڈی آہ بھر کر اس مریض کے سرپر ہاتھ رکھ دیتے ہیں توسمجھیے کہ وہ دن اس مریض کی زندگی کاآخری دن ہے۔
’’آج کس کی باری ہے۔۔۔؟اس سرپھرے مریض کی۔۔۔؟نہیں، اسے توآج دیکھابھی نہیں ،بس آگے بڑھ گئے۔ پھرکون ہے جوآج مرنے وا لا ہے ۔میں؟‘‘
اورپھر اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر رابرٹ اپنے جونیرس کے ساتھ اس کے سرہانے آکر کھڑے ہوگئے ۔رپورٹیں دیکھیں، کیس ہسٹری پڑھ کر سب کوسنائی ۔وہ کانپنے لگا توڈاکٹر رابرٹ نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ آواز اس کے اندر گھُٹ کررہ گئی۔
’’نرس ،ہیموگلوبن ٹیسٹ کرو۔ ڈرپ چڑھانے کاانتظام کرو اور آکسیجن سیلنڈر اسٹورسے نکال کریہیں رکھ لو۔۔۔‘‘
اس کے سینے میںدرد کی لہراٹھی اورآنکھیں نیندسے بوجھل ہونے لگیں تواس نے پورے بدن کوڈھیلا چھوڑدیا ،جیسے مرنے کی تیاری کررہا ہو۔
رات میں کسی وقت درد کی شدت سے آنکھ کھل گئی ۔ دم گھٹنے لگا، فضا میں ہوا جیسے تھی ہی نہیں۔ زخمی پرندے کی طرح ہاتھ پائوں پھڑ پھڑائے اوربہت مشکل سے بھاری پپوٹوں کوتھوڑا سا ہٹانے میں کامیاب ہوسکا۔ دیکھا کہ اس کے چاروں طرف ہرے پردے کاکیبن بناہوا ہے، ایک نرس اسٹول پر بیٹھی اونگھ رہی ہے، اورپھرنرس کی گردن نیند سے ایک طرف ڈھلک گئی۔ نرس کاچہرہ دھندلا پڑنے لگا اورڈاکٹرمریمؔکا چہر اابھرآیا۔
ڈاکٹر مریمؔ۔۔۔نہیں میری مریمؔ۔۔۔!’’مریم اب سوجائو۔ مجھے بھی بہت نیند آرہی ہے ۔‘‘ پھردھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بندہونے لگیں۔ لمحے بھر کواندھیر ا چھایا مگرپھر پتلیوں سے تیز روشنی پھوٹی اوراس کے چاروں طرف پھیل گئی ۔صبح ہورہی ہے اوروہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ناشتے کی میز پربیٹھامریمؔ کاانتظارکررہا ہے۔ مریم ؔآئی اوراس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’تم اتنے تنہا کیوں رہتے ہو؟‘‘یہی سوال ایک بار اس کے ایک دوست نے کیاتھا۔
’’مجھے تنہائی پسند ہے۔ ابھی تک مجھے ایسا کچھ نہیں ملا جو۔۔۔‘‘
’’ملے گا۔‘‘
اس نے کہاتھا’’ملے گا‘‘ اورآج مل بھی گیا ،مریمؔ کی شکل میں ،اس طرح کے سوال کرنے والا ایک دوست۔
دوست؟
’’لیکن وہ توایک ڈاکٹر ہے۔ مجھ سے نہیں میرے مرض سے اس کارشتہ ہے۔‘‘
اس نے ذہن سے مریم ؔ کے خیال کو جھٹکنا چاہا۔ آنکھیں کھولیں تونظراسپتال کی بالکونی پرپڑی۔ بالکونی بالکل سونی اورخالی تھی۔ تھوڑی دیریوں ہی گھورتارہا پھرآنکھیں بند کیں تو ا س یتیم خانے کے ایک کونے سے ،جہاں بچپن گزاراتھا ،ایک چھوٹاسا خوبصورت فلیٹ ابھرتا نظرآیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اورمریمؔ اس چھوٹے سے فلیٹ کی بالکونی میں آکر بیٹھ گئے ہیں۔
’’مریمؔ وہ کتنا حسین لمحہ ہوگا جب خدانے تمھیں بنانے کی پلاننگ کی ہوگی۔‘‘
’’اوروہ لمحہ؟جب میری قسمت میں آپ کولکھا ہوگا۔‘‘
’’پتا نہیں وہ لمحہ اچھاتھایابرا۔‘‘
’’برا ۔‘‘وہ جلدی سے بول پڑی اوردونوں کِھلکھلا کرہنسنے لگے۔
’’میں اسپتال جارہی ہوں، لوٹتے میں ڈرائنگ روم کے لیے پردے لیتی آئوںگی۔‘‘
’’کلر؟‘‘
’’ہاں بھئی مجھے آپ کی پسند معلوم ہے۔‘‘
’’اوکے‘‘
’’ٹھیک ہے اب میں تیارہوتی ہوں۔ جائوں؟ ‘‘مسکراتے ہوئے بولی۔
جب مریمؔ بادامی رنگ کی ساڑی پہن کر ڈرائنگ روم میں آئی تواس کادل دھک سے رہ گیا۔
’’اتنی خوبصورت ہے مریم؟ مریمؔ بھی خوب ہے کبھی تودکھائی ہی نہیں دیتی اور جب دکھائی دیتی ہے تواتنا کہ ۔۔۔‘‘
اس کی رگوں میں تنائومحسوس ہوا، جیسے بدن سے جان نکل رہی ہو۔ پوری طاقت سے خودکوسنبھالا ۔ ڈرائنگ روم کے آسمانی پردے آنکھوں کے بہت قریب آکرلہرانے لگے۔ اب پردوں کارنگ بدلنے لگاتھا اوراسپتال کے ہرے پردوں کادائرہ تنگ ہوگیاتھا۔ وہ جاگ رہا تھا لیکن لگاکہ ایک طویل نیند کے بعد ابھی ابھی جاگا ہے۔ نرس اسٹول پربیٹھی اونگھ رہی تھی ۔ گلوکوز قطرہ قطرہ اس کے جسم میں اتررہا تھا اورڈاکٹرمریم ؔ اپنے کیبن میں سوچکی تھی۔ اسے یادآیا کہ آج ڈاکٹررابرٹ نے اپنی ٹیم کے ساتھ آکر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘
سانسیں اکھڑنے لگیں ۔ نرس نے آکسیجن کاسلینڈر سنبھالا۔ اس کی نظروں میں چھوٹا سافلیٹ ہنڈولے کی طرح جھولنے لگا ۔
’’نہیں۔۔۔میں مریمؔ کو، اپنے گھر کو، اس ڈرائنگ روم کوجسے میں نے مریمؔ کے ساتھ مل کر، یاشاید اکیلے ہی سجایا ہے اور اس خوبصورت زندگی کوجس نے میرے اندردھیرے دھیرے جنم لیا ہے ،چھوڑ کرنہیں جاسکتا۔
آج رات سے پہلے جب مریم میری زندگی میں نہیں تھی توکچھ بھی نہیں تھا۔ نہ یہ گھر، نہ ڈرائنگ روم، نہ پردے اورنہ میں۔ مگراب یہ دنیا میرے لیے ایک خوبصورت پینٹنگ کی طرح ہے، دیوار پرلگی ایک پنٹنگ ۔ ابھی ایک لمحے پہلے یہ پنٹنگ خریدتے وقت مریمؔسے کتنا جھگڑا ہوا تھا۔
’’تم صرف ڈاکٹر ہو۔ سارا وقت اسپتال میں گزارتی ہو۔ تمہاراٹیسٹ بالکل خراب ہوگیا ہے۔ تمھیں اچھی چیز پسند ہی نہیں آتی۔‘‘
مریمؔ نے میری طرف کتنے پیارسے دیکھا تھا اور آنکھیں اس طرح جھپکی تھیں جیسے کہہ رہی ہو۔
’’میری پسند تو تم ہو ۔۔۔‘‘
اورپھر ہم پینٹنگ کودیوار پر لگاکر صوفے پربیٹھ گئے تھے۔ُُ
ہرے پردوں کادائرہ بہت تنگ ہوگیا تھا۔ فلیٹ اب بھی ہنڈولے کی طرح جھول رہاتھا، کھڑکی کے شیشے ٹوٹ چکے تھے اورکرچیں اس کی آنکھوں میں بھرگئی تھیں۔ کھڑکی سے دکھائی دینے والا صوفہ سکڑکر اسپتال کے تین پایوں والے اسٹول کی شکل اختیارکرچکاتھا، جس پر نرس بیٹھی اونگھ رہی تھی۔
’’صوفہ کہاں غائب ہوگیا؟ اس پر بیٹھی مریمؔ کہاں چلی گئی؟ یہ آنکھوں میں اندھیر اکیوں چھانے لگا ہے؟ میراگھر کہاں گیا؟ توکیامیں۔۔۔؟ نہیں میں ابھی مرنہیں سکتا۔مریمؔ، میری مریمؔ ،میرے بغیر۔۔۔!نہیں میں اسے اکیلے چھوڑکرکیسے جاسکتا ہوں، مجھے رکنا ہوگا۔ مریمؔ۔۔۔‘‘
’’یس سر۔۔۔کیابات ہے؟ڈاکٹرمریمؔ کوبلائوں۔۔۔؟
’’نہیں۔۔۔ڈاکٹرکونہیںمیری۔۔۔‘‘نرس نے دیکھا کہ اس نے کچھ اوربھی کہنے کی کوشش کی مگرہونٹ محض پھڑپھڑا کررہ گئے ۔
’’کہیں سانس نکل نہ جائے۔‘‘وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے سانس روکنے لگا، نرس سمجھی کہ دم نکل رہا ہے۔ سانس رکتی رہی اورچلتی رہی اورجب دل کی دھڑکنیں کئی روز تک ’’مریمؔمریم میری مریم‘‘ کی لے پر چلتے چلتے رواں ہوگئیں توڈاکٹروں کو اس کے زندہ بچ جانے پر شدید حیرت ہوئی۔
’’کرشمہ ہوگیا مریمؔ !اس مریض کی حالت بہتر ہوتی جارہی ہے۔‘‘ڈاکٹررابرٹ نے مریمؔ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کئی دنوں تک ڈاکٹروں نے اس پرخصوصی توجہ دی ،مختلف انویسٹی گیشن ہوئے، ہرطرح کی جانچ کے بعد سبھی اس نتیجے پرپہنچے کہ مریض نے اپنے اندرغیرمعمولی ریزسٹینس پیداکرلیا ہے۔ اب وہ غیرمعمولی طورپر خوش مزاج بھی ہوگیا تھا۔ کبھی کبھی مریمؔ سے مذاق بھی کرلیتا۔ وہ بھی مسکرا کر جواب دیتی۔ کئی روز تک دل ہی دل میں ان جملوں کو ترتیب دیتارہتا جواسے مریم سے کہنے ہوتے۔ وہ چاہتا کہ ایسی بات کہے جس سے اس کے دل کی حالت بھی بیان ہوجائے اورمریم برابھی نہ مانے۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے اس پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی تھی۔ جب بھی مریم ؔڈاکٹررابرٹ کے ساتھ ڈیوٹی پرہوتی تواسے سب سے بڑی دشمن نظرآتی، اس سے نفرت ہونے لگتی ،جی چاہتا کہ وہ مریم کوقتل کردے۔ وہ خود کوقابو میں رکھنے کی کوشش کرتا مگرایک روز جب اس نے دیکھا کہ مریم اس کے بستر کے پاس کھڑی رپورٹیں دیکھنے کے بجائے خودسپردگی کے اندازمیں ڈاکٹررابرٹ کی آنکھوں میں جھانک رہی ہے اورڈاکٹررابرٹ نے اس کاہاتھ پکڑ کرآہستہ سے دبادیا ہے ،تووہ خود کو قابو میں نہ رکھ سکا اورسرہانے رکھے گل دان کودیوار پراتنی زور سے دے مارا کہ کانچ کاایک بڑا ٹکڑا اچٹ کر مریم کے ماتھے پر جالگا اور چہرے پرخون کی ایک لکیر کھنچ گئی ۔ڈاکٹررابرٹ نے سخت لہجے میں کہا۔’’اس مریض کو ڈسچارج کردینا چاہیے۔ اب یہ ہمارا کیس نہیں۔ کسی مینٹل ۔۔۔‘‘
’’نہیں رابرٹ اسے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ اسے اپنی پچھلی زندگی سے نئی زندگی کی کڑیاں ملانے میں دقّت ہورہی ہے۔ اگرہم بھی ۔۔۔‘‘اورپھرتم اچھی طرح جانتے ہو کہ علاج رکنے پر یہ بچ نہیں پائے گا۔‘‘
’’مریمؔ تم اسے کچھ زیادہ ہی ۔۔۔‘‘
’’اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی ہے رابرٹ، اورجانتے ہو اس نے اپنی کہانی صرف مجھے سنائی ہے۔ جب میں نے کرسمس پراسے ایک رومال لاکردیاتھا تواس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے۔ اسی رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے کہاتھا۔‘‘
’’پہلی بار نکلے ہیں۔ اس میں بھی ایک مزہ ہوتا ہے، مجھے احساس ہی نہیں تھا۔‘‘
رابرٹ نے جیب سے رومال نکال کرمریمؔ کے ماتھے کاخون پونچھا۔ ’’چلو پہلے ڈریسنگ کروالو۔‘‘اوروہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ کئی دن بعد جب مریم آئی تو وہ نظر یں جھکائے بسترپربیٹھاتھا ۔ مریمؔ قریب آکرکھڑی ہوگئی، وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ مریمؔ نے اس کی پیٹھ پرہاتھ رکھ دیا۔‘‘ویری گڈ۔ مجھے یقین ہے اگرتم اسی طرح بیماری سے لڑتے رہے تو ایک دن بالکل ٹھیک ہوجائو گے۔‘‘
اس نے مریم کی طرف دیکھا، دل میں خواہش جاگی کہ اس کے ماتھے پر بندھی پٹی کو سہلائے۔ ہاتھ اٹھامگر کپکپا کر رہ گیا۔
اس طرح بیماری سے لڑتے رہے توایک دن بالکل ٹھیک ہوجائوگے۔‘‘ مریم کا جملہ ذہن میں گونجنے لگا۔
’’کیامیں سچ مچ ٹھیک ہوجائوںگا!‘‘
یہ خیال مزید پریشانی کاباعث بنا ۔وہ دن بھر بے چینی کی حالت میں ادھراُدھر ٹہلتارہا۔
شام ہونے کوتھی ،ہواتھمنے لگی تھی، مگرکبھی کبھی تازہ پھولوں کی خوشبو لیے ہواکاجھونکا کھڑکی سے داخل ہوتا لیکن وارڈ کی بیمارفضا سے گزرکر اس کے بسترتک پہنچتے پہنچتے دم توڑدیتا اوراسے احساس ہوجاتا کہ یہ اسپتال ہے، ہنڈولے کی طرح جھولتا کوئی خوبصورت فلیٹ نہیں۔ اس نے وارڈ میں چاروں طرف نظریں گھمائیں، اب پوری طرح شام ہوچکی تھی۔ مدھم روشنی کے بلب جل رہے تھے۔ کھڑکی کے باہر یوکلپٹس کے درخت کی شاخیں جھول رہی تھیں۔ وہ اٹھااور ٹہلتا ہوا بالکونی میں چلاگیا۔ نیچے دورتک سیاہی مائل سبزہ پھیلا ہواتھا۔
’’باہر زندگی کتنی خوبصورت ہے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی اسے اپنا جسم روح کااندھیرا قیدخانہ محسوس ہوا۔ وارڈ کے نیچے ددر تک اندھیرا چھایاہواتھا۔ اس نے دیکھا کہ اندھیرے میں بنتے مٹتے سائے پھراسی ہنڈولے کی طرح جھولتے فلیٹ کی سی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ مریم نے مہین نائٹی پہن رکھی ہے ۔ بال شانوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ اس نے اپنی انگلیاں مریم کے بالوں میں پروئیں۔
’’یاتویہ مریم کے بال نہیں یامیری انگلیاں نہیں۔‘‘ غورسے دیکھا رابرٹ بڑے پیار سے مریمؔ کی زلفیں سہلارہا تھا۔ ڈرائنگ روم میں لٹکا فانوس اچانک گل ہوگیا۔ فانوس گل ہوتے ہی اندھیراچھانے کے بجائے اس کی آنکھیں تیز روشنی سے چندھیاگئیں۔ دراصل نرس نے اسپتال کی بالکونی میں لگے بلب کوروشن کردیاتھااور بالکونی کابلب روشن ہوتے ہی فلیٹ کا فانوس گل ہوگیاتھا۔
’’آپ یہاں۔۔۔؟ بہت رات ہوگئی ہے، اب آرام۔۔۔‘‘
’’نرس ،ڈاکٹرمریم آج بھی رات کی ڈیوٹی پرنہیں ہیں نا۔‘‘
’’ہیں۔ بہت سی کتابیں لیے بیٹھی ہیں اورآپ کی فائل منگائی ہے۔‘‘
’’اکیلی ہیں؟‘‘
’’نہیں ڈاکٹررابرٹ بھی ہیں۔‘‘
’’رابرٹ۔۔۔؟‘‘
’’ہاں، وہ اکثررات کوآدھے ایک گھنٹے کے لیے وارڈ میں آجاتے ہیں، اگرڈاکٹرمریمؔ ڈیوٹی پرہوں۔۔۔‘‘نرس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ بالکونی میں لگابلب خود بخود بجھ گیا یااس نے سوئچ آف کردیاتھا ،نرس یہ نہیں دیکھ پائی اورمسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
اس کے بعد کئی دن تک اسے نیند نہیں آئی۔ دل کی رفتارمیں فرق آگیاتھا۔ آج رات بھی وہ بستر پرلیٹاکروٹیں بدل رہا تھا۔ ڈیوٹی روم میںمریم اوررابرٹ کافی پی رہے تھے۔ باہرموسم خراب تھا۔ ہواکے تیز جھونکے وارڈ کی کھڑکیوں سے ٹکرارہے تھے کہ ایک زوردار چھناکا ہوا۔ ایک کھڑکی کے شیشے ٹوٹ کربالکونی کے نیچے بکھرگئے، وہ اٹھا اورجھانک کردیکھا ،شیشے کی کرچیں منہ اٹھائے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ نہ فلیٹ ہے ،نہ ڈرائنگ روم۔ نہ دیوارپرلگی پینٹنگ ہے، نہ مریمؔ اورنہ وہ خود۔ صرف شیشے کی کرچیں ہیں اورکچھ نہیں ۔ وہ دیر تک شیشے کی بکھری کرچوں کوگھورتارہا ۔رابرٹ اورمریم دونوں نے اسے بالکونی میں کھڑا دیکھا۔
’’رابرٹ چلوباہر چلتے ہیں۔‘‘
اس موسم میں؟کہاں؟‘‘
’’کہیں بھی ۔ کینٹین۔‘‘
’’ابھی توکافی پی ہے۔‘‘
’’چلوبھی ،کہیں بھی چلتے ہیں۔بس باہر۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
اوروہ دونوں وارڈ کی سیڑھیاں اترتے اسپتال سے باہر نکل آئے۔
’’مریم ،ہواکی سنسناہٹ میں بھی ایک رومانس ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ہوسکتا ہے !‘‘
’’ہوسکتا ہے کیامطلب ،ہوتاہے۔‘‘
’’رابرٹ جب ہواتیز چلتی ہے تومجھے لگتا ہے کہ سب کچھ ایک ہی رفتارسے چل رہا ہے۔ یعنی سب کچھ اپنی جگہ ٹھہر گیا ہے۔ دل پرچھائی اداسی کی طرح۔ ‘‘
’’پتانہیں!‘‘ رابرٹ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
‘‘رابرٹ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں اوروہ بھی اسپتال کے ایٹ موسفیئر سے دور۔‘‘
’’توچلو نائٹ کلب چلتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ،وہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے ۔کسی ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں۔‘‘
’’ریگل؟‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘اوروہ دونوں ریگل کے ایک کونے والی میز پر بیٹھ گئے ۔ ریستوراں کے نیم تاریک ماحول میں دونوں تھوڑی دیرخاموش بیٹھے رہے۔
مریمؔ نے رابرٹ کے چہرے پرنظریں جمائیں۔ وہ بہت بیمار لگ رہاتھا۔ رابرٹ ہی کیوں آج تواسے ہرشخص بیمار لگ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ بیماروں کے لیے ہمدردی اورخدمت کاجذبہ پہلی بار اس کے دل میں پیدا ہوا ہے۔ ہاتھ کپکپانے لگا اور دھیرے دھیرے کھسکتا ہوا رابرٹ کے ہاتھ کے اوپر جاکر ٹھہرگیا۔
’’کیابات ہے مریم؟‘‘
’’میں بہت الجھن میں ہوں۔‘‘
’’کیوں ۔۔۔؟‘‘
’’رابرٹ۔۔۔کیاتم۔۔۔آئی مین۔۔۔‘‘
’’یس، میں ۔۔۔میں۔۔۔آئی مین ۔۔۔آئی لو یو۔‘‘
مریم کولگا کہ رابرٹ کاہاتھ انگارے کی طرح دہک رہا ہے۔ میز پر رکھی کافی کی پیالیوں سے دھواں اٹھ رہاتھا اورآہستہ آہستہ جھاگ بیٹھتے جارہے تھے کہ مریم رابرٹ کی طرف جھکی اوراس کے کندھے پر سرٹکاتے ہوئے بولی۔’’جتناتم میرے قریب آرہے ہو ،میں تم سے دور ہوتی جارہی ہوں۔‘‘
رابرٹ نے اپنی گرم ہتھیلی سے مریم کے چہرے کوتھپتھپاتے ہوئے کیاکہا، یہ تو وہ سن نہیں سکی لیکن اب اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔
’’میں سمجھتا تھا تم مضبوط عورت ہو۔‘‘
’’اتنی کمزور بھی نہیں ہوں، لیکن سب اتنے مضبوط نہیں ہوتے۔‘‘
’’سب کون؟‘‘ رابرٹ نے کافی کی پیالی اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔
’’رابرٹ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘پیالی کوہونٹوں تک لے جاتے لے جاتے اس کاہاتھ رک گیا۔ بغیر سِپ لیے ہی پیالی کومیز پر رکھ دیا اورسنبھل کر بیٹھ گیا۔
’’تم کیاکہناچاہتی ہو؟‘‘
مریم نے اپنے ماتھے پرلگی چوٹ کے نشان کوچھوتے ہوئے کہا۔’’وہ بہت کمزور ہے۔‘‘
’’وہ۔۔۔وہ کون؟تم اس کانام جانتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔وہ۔۔۔وہ ایک مریض ہے۔‘‘
’’یہی تومیں کہنا چاہتا ہوں ۔وہ صرف ایک مریض ہے ۔کچھ دن میں ٹھیک ہوکر چلاجائے گا۔‘‘
’’نہیں رابرٹ ، وہ جب تک ٹھیک نہیں ہورہاہے ،تبھی تک زندہ ہے۔ جس دن ٹھیک ہو گیا، مرجائے گا۔ میں نے اس کے درد کومحسوس کیا ہے، اسے سمجھا ہے۔ وہ اپنی ایک دنیا بساچکا ہے ۔اس کے ٹھیک ہوتے ہی شاید وہ دنیااجڑجائے گی اور ۔۔۔‘‘
’’مریم اسے سمجھائو، وہ تمہاری بات سمجھتا ہے۔ وہ دنیا خوابوں کی دنیا ہے، اصل دنیا نہیں۔‘‘
’’بات اسے سمجھانے کی نہیں، تم سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’میں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں رابرٹ۔ میری محبت اپنے آپ میں کچھ نہیںہے۔ اس کاہونا نہ ہونا کسی کی ضرورت پرڈپینڈ کرتا ہے ،اوراسے میری ضرورت ہے۔‘‘
’’مریم تم نے زندگی کوسمجھاہی نہیں ۔جذباتی ہوکرزندگی کوسمجھا بھی نہیں جاسکتا۔ ہم ڈاکٹر ضرور ہیں۔ مریضوں کے لیے بہت کچھ کرناہماری ڈیوٹی ہے مگرہماری بھی زندگی ہے ۔ہم اسے اپنے ڈھنگ سے گزارتے ہیں۔‘‘
’’رابرٹ نہیں ۔شاید زندگی وہ نہیں جو ہم گزاررہے ہیں اصل زندگی وہی ہے جو وہ جی رہا ہے۔‘‘
رابرٹ ہنس دیا اورمریم کوآغوش میں سمیٹتے ہوئے شرارت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’اس میں ایسا کیا ہے ،جوہم میں نہیں ۔۔۔؟‘‘یہ پوچھ کر شاید اس نے سنجیدگی کوتوڑنے اور موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی لیکن مریم نے مزید سنجیدہ ہوکر جواب دیا۔
’’پتا نہیں؟بس اتنا جانتی ہوں کہ جب وہ مجھے تمہارے ساتھ دیکھتا ہے تواس کے اندرآگ سلگنے لگتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے نفرت جھلکتی ہے۔ اس وقت مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے وہ میرا گلا دبادے۔‘‘ رابرٹ نے زور دار قہقہہ لگایا ،دوسری میزوں پر بیٹھے لوگوںنے مڑکر اس طرف دیکھا اور وہ گھبرا کرباہرلان کی طرف جھانکنے لگا۔
’’ہواتھم گئی ہے، لان میں چلتے ہیں۔‘‘
لان میں ایک چھوٹاسا سوئمنگ پول تھا۔ صاف شفاف پانی میں چاند کاعکس پڑرہا تھا۔ جوچاند آسمان پر سفید تھاوہ پانی میں زرد دکھائی دے رہا تھا۔ آسمان کے چانداور پانی کے چاند کے فرق سے مریمؔ اچھی طرح واقف ہوچکی تھی۔ رابرٹ مریمؔ کے دونوں کندھوں کوپکڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ مریم کے ہونٹ کپکپائے، آنکھیں بند ہونے لگیں تورابرٹ نے اپنے سخت ہونٹ اس کے ہونٹوں پررکھ دیے۔ مریم نے آنکھیں کھولیں اورآسمان کی طر ف دیکھا۔ چاند کارنگ اور زیادہ نکھر آیاتھا۔ مریمؔ نے رابرٹ کے بالوں کومٹھی میں بھرااوراس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبالیے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھے چاند کے زردعکس کوگھوررہے تھے۔
’’پتانہیں رابرٹ، سچ کیا ہے؟ وہ بھی سچ ہے۔‘‘ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔’’اوریہ بھی سچ ہے۔‘‘ پانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔
’’تم جانتی ہوہم جلدی ہی شادی کرنے والے ہیں ۔پھریہی سب ۔۔۔؟‘‘
’’رابرٹ اگرمیں تم سے شادی کربھی لوں تویہ اسی طرح ہوگا جیسے ہم پانی کے چاند کو دیکھ کر سمجھیں کہ یہ ہماری دنیا میں روشنی بکھیررہا ہے اوریہ بھول جائیں کہ اصل چاند توآسمان میں ہے، ہم سے بہت دور۔‘‘
’’لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تم اس چاندکوپکڑنے کی کوشش کررہی ہو جو ہے ہی نہیں۔‘‘
اچھامریم اب اس بات کویہیں ختم کرو۔‘‘
’’میں بھی یہی کہتی ہوں، اس بات کویہیں ختم کرو۔‘‘
’’مریمؔ۔۔۔‘‘اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔’’تم خود کودھوکادے رہی ہو۔ وہ ایک مریض ہے۔ پتانہیں کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟کیاتم اس کے ساتھ ۔۔۔‘‘
’’معلوم نہیں ۔بس اتنا جانتی ہوں کہ جب پتاچلا کہ دنیامیں اس کاکوئی نہیں۔ وہ تنہا ہے تومجھے لگا کہ میں اس کے ساتھ ہوں ۔میں نہیں سمجھ پاتی کہ یہ کیا ہے۔؟‘‘
’’یہ کچھ نہیں ہے ۔تم ایک نرم دل عورت ہو، اس پرترس کھانے لگی ہو۔ تم جانتی ہوکہ اس نے اپنے اندرجوریزسٹینس پیدا کرلیا ہے اس کی وجہ تم ہوااوراب اگروہ مرا توتمہاری ہی وجہ سے مرے گا، اورتم یہی نہیں چاہتیں ۔لیکن تمہیں نہیں معلوم کہ اس کو بچانے کی کوشش میں تم ختم ہورہی ہو۔‘‘
مریم اٹھی ،آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کرسمس کے درخت کے نیچے جاکر کھڑی ہوگئی اورسوچنے لگی کہ یہ درخت اپنی جڑیں گہرائی تک زمین میں اتارتے چلے جاتے ہیںاورخودآسمان کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ ان کاسفر دونوں سمتوں میں ہوتا ہے۔ مگرمجھے ایک ،صرف ایک طرف بڑھنے کافیصلہ کرنا ہے۔ اس نے مڑکر دیکھا، رابرٹ تھکاہارا ساایک بینچ پر بیٹھا دکھائی دیا۔ دل بھرآیا ،قدم خود بخود اس کی طرف بڑھنے لگے۔ آسمان پرنگاہ کی۔ بادل کے ایک سیاہ ٹکڑے نے چاند کواپنے اندر چھپالیا تھا۔ چاروں طرف اندھیرا تھا، گہرا سناٹاتھا اور سناٹے میں بس ایک آواز گونج رہی تھی۔’’اسے بچانے کی کوشش میں تم ختم ہورہی ہو مریم ۔۔۔تم ختم ہورہی ہو۔‘‘
’’نہیں، میرابچنا ضروری ہے ۔اسے بچانے کے لیے بھی میرا بچنا ضروری ہے۔‘‘
مریم کی رفتارمیںتیزی آگئی اور وہ چند لمحوں میں رابرٹ کے قریب جاپہنچی ۔اس کاہاتھ پکڑکوبولی۔
’’چلو بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘
رابرٹ نے بھی آہستہ سے مریم کاہاتھ پکڑ لیا۔ مریم نے محسوس کیا کہ اتنی نرمی اور اتنی مضبوطی سے رابرٹ نے پہلی بار اس کاہاتھ پکڑا ہے۔ بیک وقت نرمی بھی اورسختی بھی ۔ زندگی کے اس پہلو کی حقیقت اب اس پر رفتہ رفتہ کھل رہی تھی۔ وہ رابرٹ کے قریب آگئی اور دھیرے سے بولی۔
’’رابرٹ یہ ہاتھ اسی طرح زندگی بھرتھامے رہنا۔‘‘
’’تم بھی وعدہ کرو، کبھی چھڑانے کی کوشش نہیں کروگی۔‘‘
’’وعدہ کیا۔‘‘
اب وہ دونوں زیادہ دیرسنجیدگی قائم نہیں رکھ سکے اورکھلکھلاکر ہنس پڑے۔
سیاہ بادل کی اوٹ میں چاند کے چھپتے ہی بہت سے چھوٹے چھوٹے تارے اپنے وجود کا احساس کرانے لگے تھے۔ تارے آسمان پرچمک رہے تھے لیکن ان دونوں کولگ رہا تھا کہ ان کی راہ میں بکھرے پڑے ہیں۔ گویاوہ زمین پر نہیں ،آسمان پر چل رہے ہوں۔ اب وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سرکاری اسپتال کی طرف لوٹ رہے تھے ۔چاہتے تو تھے کہ سفر کبھی ختم نہ ہو مگر تھوڑی ہی دیر میں اسپتال کے گیٹ پر جاپہنچے۔ سیڑھیاں چڑھ کر وارڈ میں داخل ہوئے ۔مریض سوچکے تھے ، ڈیوٹی روم کادروازہ کھلا ہواتھا، وہ اندر چلے گئے۔
میز پر اس مریض کی فائل کھلی پڑی تھی۔ کھڑکی سے آسمان پر چمکتا چاند صاف دکھائی دے رہا تھا۔ بادل کا سیاہ ٹکڑا کہیں اورجاپہنچا تھا۔ مریم ؔنے میز پر پڑی فائل کواٹھایا اور مختلف رپورٹوں کوغورسے دیکھنے لگی۔ رابرٹ نے بھی اپنی کرسی اس کے قریب کھینچ لی ۔چند لمحوں بعد دروازے پر آہٹ ہوئی۔پھریہ آہٹ باربار ہونے لگی۔ باہراندھیرا تھا۔ جھانک کر دیکھا ایک سایہ نظرآیا، انھیںمحسوس ہوا کہ کوئی شخص دروازے تک آتا ہے، سامنے سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے مگراس کے پائوں کپکپاتے ہیں اور واپس لوٹ جاتا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اوربہت دیر تک دیکھتے رہے۔ باہر وہی آنے اورلوٹ جانے کاسلسلہ جاری تھا کہ ایک زوردار آواز ہوئی، کھڑکی سے ٹوٹ کرشیشے کے گرنے کی سی آواز ۔مریم اور رابرٹ گھبراکر کیبن سے نکل آئے ۔مریمؔ کے ہاتھ میں اس کی فائل تھی۔
’’کیاہوا؟ یہ کیسی آواز تھی۔۔۔کون ہے وہاں؟‘‘
مریم کی آواز کانپ رہی تھی ۔وارڈ کے کچھ مریض بھی جاگ گئے ،نرس آگئی۔ وارڈ میں سارے مریض موجود تھے ، صرف وہ غائب تھا۔ ڈاکٹر رابرٹ اورمریم نے بالکونی سے جھانک کردیکھا ،زمین پر ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے پڑے تھے اورجگہ جگہ خون کے نشان تھے۔
’’مریم یہ خون کے نشان۔۔۔؟‘‘
’’ہاں رابرٹ وہ بالکونی سے کود کر بھاگا ہے ،ننگے پائوں۔‘‘
’’لیکن کیوں ۔۔۔؟‘‘
’’زینے کے راستے میں ہماراکیبن تھا اورشاید اس کوپارکرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اسی لیے ۔۔۔‘‘
’’لیکن کیاوہ نہیں جانتا تھا کہ بیچ میں علاج چھوڑ کر چلے جانا، موت کوبلانا ہے۔‘‘
’’جانتاتھا ،اسی لیے چلاگیا۔‘‘
مریم نے گہری سانس لی اورایک بارپھر خون کے نشان دیکھنے کے لیے نیچے جھکی۔
’’وہ دیکھو رابرٹ ۔۔۔کچھ دور جاکریہ نشان غائب ہوگئے ہیں ۔۔۔‘‘
رابرٹ نے مریم کاہاتھ تھام لیا۔ مریمؔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولی۔’’زخمی پیروں پرمردہ کھال کے جوتوں کا خول چڑھا کر سمجھا ہوگا کہ شاید سفر آسان ہوجائے ۔۔۔‘‘
مریمؔ کیس ہسٹری کی فائل لیے بالکونی میںگم صم کھڑی تھی ۔رابرٹ نے مریم کے ہاتھ کو ،جسے اس نے پہلے تھام رکھاتھا ،مضبوطی سے پکڑلیا۔ مریم کی گرفت فائل پرڈھیلی پڑنے لگی کہ ہوا کا تیز جھونکا آیا۔ فائل کے کاغذ اڑے اورایک ایک کرکے بالکونی کے نیچے پڑے خون سے سنے شیشے کی کرچوں کے ننگے بدن کوڈھکنے لگے ۔ مریمؔ نے آہستہ سے رابرٹ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑالیا اورواپس وارڈ میں آنے لگی ۔۔۔ رابرٹ جو سمجھاتھا کہ ہمیشہ کے لیے اس نے مریم کاہاتھ تھام لیا ہے ،تنہا بالکونی میں کھڑا رہ گیا۔
وارڈ میں پہنچ کرمریمؔ نے دیکھا کہ وہ رومال جواس نے کرسمس کے موقع پر اس مریض کودیاتھا، بڑے سلیقے سے بستر پر رکھا ہوا ہے۔ وہ لمحے بھر کے لیے رکی اورپھرتیزی سے اپنے کیبن کی طرف چل پڑی۔