آدھی سیڑھیاں
سعیدہ بیگم اپنے کمرے سے نکل کر دہرے دالان سے ہوتے ہوئے احمد کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’اٹھ گئے بیٹے؟‘‘
’’جی امی جان۔۔۔‘‘
احمدآنکھیں ملتا ہوابسترسے اترکر کھڑاہوگیا۔
’’آفتابے میں گرم پانی رکھ دیا ہے ،جائو منہ دھولو۔‘‘
احمدنے منہ دھولیا توسعیدہ بیگم ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں آگئیں۔
’’اب شادی میں صرف ایک مہینہ باقی ہے اورتم نے روپیوں کاابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا۔ مہمانوں کودعوت نامے بھی پہنچنے ہیں۔ ایک مہینہ پہلے سے تومہمان داری جڑنا ہی چاہیے۔‘‘
احمدروغنی روٹی کانوالہ چباتے ہوئے بولا۔
’’امی جان، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب کسی کے پاس اتناوقت کہا ں ہے جو مہینوں پہلے سے شرکت کرے۔ جنہیں بلانا ہوگا ہفتہ بھر پہلے دعوت نامے بھیج دیں گے۔ خاص خاص رشتے داروں کو توبلانا ہی ہے۔ بھیڑ جمع کرنے سے کیافائدہ۔‘‘
سعیدہ بیگم نے دیکھا کہ رکابی میں خاگینہ اسی طرح رکھا ہوا ہے اور وہ روکھے لقمے نگل رہا ہے۔
’’ٹھیک ہے بیٹے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
احمدنے ناشتے کے بعد سلفچی میںہاتھ دھوئے اور صدردروازے سے نکلتا ہوا لالادیوی سرن کی بیٹھک کی جانب مڑگیا۔ لالا چبوترے پرہی دھوپ میں پلنگ ڈالے بیٹھے تھے۔
’’آئواحمدمیاں۔۔۔کیسے تکلیف کی؟‘‘
احمدچارپائی کے برابر رکھے مونڈھے پربیٹھ گیا۔
’’بہت دنوں سے آپ کے درشن نہیں ہوئے تھے۔ پڑھائی لکھائی کے چکرمیں علی گڑھ سے آناہی نہیں ہوتا۔ سوچا اب آیا ہوں توآپ سے مل آئوں اورپھر نیوتا جودینا تھا۔‘‘
’’کاہے کانیوتا احمدمیاں۔۔۔‘‘
لالاجی کاہاتھ پیٹ پر رینگنے لگا۔
’’وہ بات یہ ہے کہ میں ۔۔۔میرامطلب ہے امی جان نے رشتہ پکاکردیا ہے ۔ایک مہینے بعد کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔‘‘
’’مگررشتہ تومیاں اپنے سامنے ہی پکا کرگئے تھے ۔روشن نگروالے میاں کی بیٹی کے ساتھ۔‘‘
’’وہ بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘
احمدسے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
’’اچھا تووہاں سے رشتہ ٹوٹ گیا ۔۔۔‘‘
لالادیوی سرن نے ٹوٹنے پر اس طرح زوردیا جیسے یہ توٹوٹنا ہی تھا۔
’’ویسے اب کہاں ہوا ہے رشتہ؟‘‘
احمدکا جی چاہا کہ کوئی جواب نہ دے مگراس نے الفاظ ڈھکیلے ۔
’’علی گڑھ میں ہی ایک لڑکی ہے۔‘‘
’’تمہارے سنگ پڑھتی ہوگی۔‘‘
’’جی۔‘‘
مجرم کی طرح احمد نے گردن جھکالی
’’احمدمیاں جب سے تم علی گڑھ گئے ہو ،تمہارابستی سے کوئی ناتاہی نہیں رہا۔ کتنی پڑھائی اور ہے؟‘‘
’’بس ریسرچ۔۔۔ یعنی کچھ لکھنا ہے بس ایک کتاب۔‘‘
’’وہ توٹھیک ہے مگریہاں ۔۔۔تم نے کھیتی باڑی بھی نوکروں کے اوپر چھوڑ رکھی ہے اوراب توشادی بھی علی گڑھ میں ہی۔۔۔‘‘
وہ سرنیچا کیے خاموش بیٹھا تھا ۔
’’بیاہ کی تیاری توسب ہے نا؟‘‘
’’ہاں تیاری توہورہی ہے۔‘‘
احمدنے آہستہ سے کہا۔ لالادیوی سرن نے گھاگ نظروںسے اسے دیکھااورسب کچھ سمجھ گئے ۔
اچھا تم کل صبح نوبجے آجانا۔‘‘
صبح اٹھ کر جب وہ ڈیوڑھی کے صدردروازے سے باہرنکلا تو دیکھا کہ دوبچے دھوپ میں کنچے کھیل رہے ہیں۔ احمد اونچے چبوترے پر کھڑا چھوٹی چھوٹی کانچ کی ان گولیوں کو دیکھتا رہا جنہیں بچے انگلیوں سے اِدھر اُدھر لڑھکارہے تھے ۔ ہری گولیوں والا بچہ جیت رہا تھا۔ بچے نے جب سے ہری گولیاں نکال کر اطمینان سے زمین پر پھیلادیں اورجیتی ہوئی لال گولیوں کو چاک کی جیب میں رکھ لیا۔احمدنے سامنے دیکھا ،دورتالاب کے اس پار اس کے اپنے ہرے ہرے کھیت لہلہارہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اورجب کھولیں تومحسوس ہوا کہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ اب بازی پلٹ گئی تھی۔ زمین پربکھری ہری گولیاں غائب تھیں اور لال گولیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ سورج کی کرنیں زمین پراترآئی تھیں اورکانچ کی لال گولیوں پر اس طرح پڑ رہی تھیں کہ اس کے کھیت اب سرخ نظرآرہے تھے۔ احمد نے گھڑی دیکھی ،نوبجنے ہی والے تھے ۔ وہ لالا دیوی سرن کی گدی پر پہنچادیکھا کہ لالا اپنالال بہی کھاتا لیے کچھ لوگوں کے بیچ بیٹھے حساب کتاب میں مشغول ہیں۔
’’آداب عرض لالاجی۔۔۔‘‘
’’آداب عرض احمدمیاں۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’جی ۔۔۔؟‘‘
احمدبوکھلاگیا۔
’’ارے ہاں۔۔۔آئو آئو بیٹھو۔ اچھا کندن لال جی کل آنا کام ہوجائے گا اور بھیانند ناتم بھی اپنے گائوں جائو فکرمت کر اور تم یہ لو۔۔۔‘‘
سب لوگ لالاجی کونمستے کرتے ہوئے بیٹھک سے اٹھ کر چلے گئے اور جوبیٹھے رہ گئے وہ جیسے آدمی نہ ہوں سامان کی گٹھریاں رکھی ہوں ۔۔۔لالادیوی سرن نے احمدکی طرف کھسکتے ہوئے آہستہ سے پوچھا
’’تمھیں روپیوں کی ضرورت ہے نا؟‘‘
وہ خاموش بیٹھا رہا ۔دراصل لالادیوی سرن کاسوال ہی احمدکاجواب تھا۔
’’دیکھو کنورصاحب، سرکارنے کچھ ایسے قانون بنادیے ہیںکہ بغیر کوئی چیز رکھے بیان پر روپیہ دیتے ڈرلگتا ہے ۔ اب توبیاج کاکام ختم ہوتا ہی لگے ہے۔پیٹ پالنے کے لیے کچھ نہ کچھ توکرنا ہی پڑے گا۔ سوچ رہا ہوں بھینسیں پال کر دودھ کاکام شروع کردوں۔‘‘
لالادیوی سرن بولتے رہے۔
’’شادی کے بعد ماتاجی کوتواپنے ساتھ ہی لے جائو گے، ڈیوڑھی خالی ہوجائے گی، زنان خانہ توٹوٹ ہی گیا ہے بس ڈیوڑھی کاحصہ بچا ہے، اگراسے بیچ دو تو میں اس میں بھینسیں پالنے کابندوبست کرلوں۔ میرابھی کام نکل جائے گا اور تمہاری شادی بھی ۔۔۔‘‘
احمدکی آنکھیں پھیل گئیں۔ کچھ حیرت سے ،کچھ قصداً تاکہ آنسوخشک ہوجائیں اورٹپکنے نہ پائیں ۔ رنگ برنگے دائرے بننے مٹنے لگے اورنظروں میں بچپن کی دھندلی تصویریں ابھرآئیں۔
’اباحضور دالان میں بیٹھے فرشی حقہ پی رہے ہیں۔ دھوئیں میں شامل خمیرے کی فضا معطر ہے۔ وہ امی جان کے ہاتھ کی کڑھی سچے گوٹے کی کناری والی گول ریشمی ٹوپی پہنے آنگن میں کھیل رہا ہے۔ دھوپ میں جہازی پلنگوں پرابا حضور کی اچکنیں ،گرم شیروانیاں اورامی جان کے کمخواب اور پوتھ کے غرارے پھیلے ہوئے ہیں۔ اسے پشمینے کی شالوں اورکشمیری نمدوں میں بسی کافور کی مہک بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ اباحضور کی آنکھ بچاکر کپڑوں سے کھیلنا شروع کردیتا ہے ۔ریاضو گود میں اٹھانے کی کوشش کرتاہے تو وہ بری طرح مچلنے لگتا ہے۔ پائیں باغ میں رحیما بیلے اورہارسنگار کے پھول چن رہا ہے۔ امی جان ہاتھ میں آب پاش لیے شہتوت کے پیڑ میں پانی لگارہی ہیں۔ یہ پیڑ دادا جان نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ اس کے شہتوت بہت میٹھے ہیں۔ جب بھی اتر تے ہیں تو امی جان غفورخاں کے ہاتھ روشن نگرضرور بھیجتی ہیں۔‘
’’کیاسو رہے ہو احمدمیاں؟‘‘
لالادیوی سرن نے اسے چونکادیا۔
’’لالاجی ،میں ڈیوڑھی تونہیں بیچ سکتا۔‘‘
احمدنے دوٹوک جواب دیا اورسوچنے لگا کہ ایک توپہلے ہی بہت کچھ بک چکا ہے ۔ڈیوڑھی کے علاوہ بمبے کے سہارے والی اسّی پچاسی بیگھے زمین ہی توبچی ہے ۔ اگرڈیوڑھی بھی بک گئی توبستی میں جوکچھ عزت ہے وہ بھی خاک میں مل جائے گی۔ پھر لالاسے مخاطب ہوکر بولا۔
’’آپ اگرسود پرروپیہ نہیں دے سکتے تو دس پانچ بیگھے زمین خرید لیجیے۔
’’نہیں احمد۔۔۔ ‘‘
میاں شاید دل میں کہاہومگرزبان سے صرف احمدہی نکلا اوراحمد کے بعد تھوڑا وقفہ دیا پھربولے ۔
’’میرے پرکھوں نے بھی کھیتی نہیں کی۔ میں زمین کاکیاکروں گااوروہ بھی صرف دس پانچ بیگھے۔ اب اتنی سی زمین کے لیے نوکررکھوں ،جوارا بنائوں اورپھربیل باندھنے کوایک گھیر۔۔۔ایک دوبیگھے زمین تو اسی میںگھر جائے گی، پھربچی ہی کتنی۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر دونوں خاموش رہے پھرلالادیوی سرن کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
’’ہاں اگرسوڈیڑھ سو بیگھے زمین ہو تو اس میں کچھ روپیہ لگایا بھی جائے۔ مجھے زمین کا بیوپار تو کرنا نہیں ہے کہ تم سے اونے پونے داموں میں خرید کرکسی اور کوبیچ دوں۔‘‘
’’لالاجی امی جان نے آپ ہی کے بھروسے تاریخ طے کی تھی ۔۔۔‘‘
’’توپھر ساری زمین بیچ دو۔ میں خرید لوںگا۔ تمہیں کون سی کھیتی باڑی کرنی ہے ۔ پڑھ لکھ کر تونوکری ہی کروگے۔‘‘
لالادیوی سرن احمدکاچہر ہ پڑھنے لگے۔ پھرخاموش بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھا اورالماری سے پوتھی نکال کرپٹ اس طرح بند کیے جیسے احمد کوباہر نکال کردروازہ بند کرلیا ہو۔ احمدنے محسوس کیا کہ وہ سامان کی گٹھری بن گیا ہے ۔
اس نے پہلوبدلا تولالا نے اس پراچٹتی سی نظرڈالی اوربولے۔
’’یاپھر کسی کسان سے بات کرلو۔ کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔
احمدکہاں گھر گھر جاکر زمین بیچنے کی بات کرتا گھومتا۔ اس نے دوچار لوگوں سے بات کی بھی مگران کے لیے اتنی جلدی روپیوں کاانتظام کرنا مشکل تھا۔ جن کے پاس روپیے تھے وہ اس کی ضرورت کافائدہ اٹھاکرکوڑیوں کے دام خریدنا چاہتے تھے۔ شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے اورابھی تک پاندان کی چھالیوں بھرکاانتظام بھی نہ ہوپایاتھا۔ بدنامی کے خوف سے تاریخ بھی نہیں بڑھائی جاسکتی تھی۔
مغرب کی اذان ہوئے کافی دیرہوگئی تھی ۔بمبے والے کھیت اندھیرے میں ڈوب گئے تھے ،مگروہ ڈیوڑھی کی بالائی منزل پرکھڑا اپنے کھیتوں کو گھورے جارہا تھا۔ زینے سے اتر کر جب اس نے سعیدہ بیگم کے کمرے میں جھانکا تو وہ دعاکے بعد جانماز لپیٹ رہی تھیں۔ جب وہ پلنگ پرتسبیح لے کر بیٹھیں تو احمد بھی کمرے میں داخل ہوگیا۔ سعیدہ بیگم نے بیٹھنے کااشارہ کیا اور وہ پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گیا ۔
’’وہ ایسا ہے امی جان ۔۔۔‘‘
’’کیا ہے بیٹے؟‘‘
’’کچھ نہیں ،آج سردی بہت ہے۔‘‘
’’کیا بتّوکی اماں نے تمہارے پلنگ کے نیچے بھوبھل کاکونڈانہیں رکھا؟‘‘
انھوںنے کچھ اس انداز سے باہر جھانکا جیسے بتّو کی اماں کوپکارنے والی ہوں۔
’’بھوبھل تورکھ دی ہے مگرسوچاکچھ دیرآپ کے پاس ہی بیٹھ لوں۔‘‘
’’ہاں بیٹے۔۔۔تمہارا یہاں دل بھی تونہیں لگتا ہوگا۔ بچپن میں ہی توشہر چلے گئے تھے۔ کبھی ایک دوروز کے لیے آتے ہو، دل لگے بھی کیسے۔‘‘
’’نہیں امی جان یہ بات نہیں ہے، دراصل آپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘
’’ہاں کہو۔۔۔‘‘
سعیدہ بیگم نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
’’بات توکوئی خاص نہیں ہے ۔بس یوں ہی اپنے فیوچر۔۔۔میرامطلب ہے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پڑھائی سال ڈیڑھ سال میں ختم ہوجائے گی ۔ آج کل نوکریاں توملتی نہیں ہیں اورپڑھائی لکھائی کے بعد یہاں آکر کھیتی باڑی کرنا۔۔۔ کھیتی باڑی بھی کوئی کیاکرے ،حکومت نے سیلنگ کاایسا چکر چلایا ہے کہ پتانہیں یہ زمین بھی رہے یانہیں۔ میں نے سوچا ہے ۔۔۔‘‘
احمدکہتے کہتے رک گیا۔
’’کیاسوچا ہے ؟‘‘
سعیدہ بیگم نے پوچھا ۔
ہمیں اب کھیتی کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے۔ آمدنی کاکوئی اورذریعہ۔۔۔‘‘
’’بات توٹھیک ہے، مگراورکیا ہوسکتا ہے؟‘‘
سعیدہ بیگم غورسے سننے کے لیے تھوڑا آگے کھسک آئیں۔
’’آج کل شہروں میں مکانوں کے کرائے بہت ہیں، اگرکچھ مکان بنوادیے جائیں توماہانہ آمدنی خاصی ہوجائے گی۔ اور پھررہنے کوبھی ایک مکان ہوجائے گا، کرائے کے مکان میں تو۔۔۔آپ کابھی یہاں اکیلے دل گھبراتا ہوگا، وہیں ساتھ رہیں گے۔ آپ کادل بھی لگارہے گا۔‘‘
احمدایک لمحے کے لیے خاموش ہواتوسعیدہ بیگم نے چھت کی طرف دیکھا۔ ایک جنگلی کبوتر شہتیر کے کنڈے میں جھول رہا تھا۔ معلوم نہیں کیاہوا کہ اپنے پرپھُلانے لگااورپھرکنڈے کے دائرے سے نکل کر پرپھڑپھڑاتا ہوادیوار سے جاٹکرایا۔ نیچے فرش پر گرنے ہی والاتھا کہ سنبھلا اورروشن دان کی طرف اڑا۔ روشن دان کاشیشہ ٹوٹ چکا تھا ،کبوترتیزی سے نکلا اورباہر تاریکی میں گم ہوگیا۔ سعیدہ بیگم نے احمد کے چہرے کوغورسے دیکھا۔
’’لیکن بیٹے، اس کے لیے پیسا بھی توچاہیے۔‘‘
’’امی جان نوکروں کی کھیتی میں بچتا ہی کیا ہے اوراس وقت لالادیوی سرن ہماری زمین کے دام بھی اچھے لگا رہے ہیں۔ آئندہ معلوم نہیں کیساموقع ہو، اگر آپ کی اجازت ہو۔۔۔‘‘
سعیدہ بیگم کی آنکھ سے آنسوگرا اورلحاف کی روئی میں جذب ہوگیا۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولیں۔
’’اس بچی کھُچی زمین کو کیوں بیچتے ہو ۔تمہارایہاں سے بالکل اکھڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے کبھی کبھار آبھی جاتے ہو ۔ پڑی رہنے دواسے اپنے اباحضور کی نشانی سمجھ کر۔ ‘‘
’’لیکن امی جان ،شادی کے لیے روپیوں کاانتظام بھی تونہیں ہوپایا ہے۔ لالانے سود پر دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔ میں نے چاہادس پانچ بیگھے زمین بیچ دوں مگرکوئی گاہک نہیں ملا۔ لالاتیار ہیں مگرکہتے ہیں ،ساری زمین بیچوتوخریدبھی لوں۔۔۔‘‘
’’کوئی اورصورت نکل سکتی ہوتواچھا ہے بیٹے۔‘‘
’’بس ایک ہی طریقہ ہے کہ چارپانچ معمولی سے جوڑے ہوجائیں اوراباحضور کے جوبٹن ہیں۔۔۔‘‘
سعیدہ بیگم نے جلدی سے احمدکی بات کاٹ دی۔
’’نہیں احمد ،ہمیںبرات لے کردوسرے کی دہلیز پر جانا ہے ۔اپنی نہیں تواپنے ابا حضور کی عزت کا توخیال کرو، اگر شادی دھوم دھام سے نہیں ہوئی تو بستی والے کیاکہیں گے۔‘‘
’’مگراب روپیوں کاتوکہیں سے انتظام نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’کچھ بھی ہوبیٹے ،زمین بیچنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
سعیدہ بیگم نے لیٹتے ہوئے کہا۔
احمداپنے کمرے میں جلتی ہوئی لالٹین کی لَو کبھی تیز کرتاتوکبھی کم۔ جب لو اتنی کم ہوجاتی کہ لالٹین کے بجھ جانے کاگمان ہونے لگتا تووہ ہڑبڑاکر اس کی لوتیز کردیتا کہ چمنی چٹخ جانے کاخوف اس کے جسم میں تیرجاتا۔ چمنی اتنی سیاہ ہوچکی تھی کہ شیشے کی قید سے باہر نکلنا اب روشنی کے بس میں نہیں تھا۔
’’آنکھیں بند کرلینا اورسوجا نا ہی بہتر ہے۔‘‘اس نے سوچا۔
وہ بستر پر لیٹ تو گیا مگر نیند لالادیوی سرن کی چوکھٹ پر کھڑی رہی اوراس کی آنکھیں رات بھر چھت کی کڑیاں گنتی رہیں۔
سعیدہ بیگم کوکچھ بتائے بغیر سب طے ہوگیا۔ لالادیوی سرن نے آدھی رقم دے کرکاغذکرالیا اورباقی روپیے بیع نامے کے وقت دینے کاوعدہ کرلیا۔ احمد نے جب سعیدہ بیگم کے ہاتھ میں روپیے لاکر دیے توان کے ہاتھ کانپ گئے ۔احمد کے چہرے کاجائزہ لیا، پھربولیں۔
’’کیاتم نے زمین بیچ دی ۔۔۔؟‘‘
’’اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘
’’توکیا یہ ڈیوڑھی بھی بیچ دو گے؟‘‘
سعیدہ بیگم کی بوڑھی نظریں ڈیوڑھی کی دیواروں پررینگنے لگیں۔
’’نہیں امی جان ،عید بقرعید توہم یہیںکریںگے۔‘‘
احمد نے اپنی دانست میں سعیدہ بیگم کو مطمئن کردیا۔
شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ہار، بندے ،بالیاں ،جھمکے ،بازو بند ،نتھ ،جھومر، چوڑی اورکنگن ،سبھی زیورات خریدے گئے ۔ریشم کے کسی کپڑے پرزری توکسی پر زردوزی کاکام شروع ہوگیا۔ سینے پرونے میں ماہر محلے بھر کی لڑکیاں اپنی انگلیوں کے کرتب دکھانے لگیں۔ تلے دانیاں نکل آئیں ، دالان میں کہیں سلمے تو کہیں ستارے اورکہیں کلابتوبکھرے نظرآنے لگے۔ مسالوں کی کُٹائی کے لیے ہاون دستے نکل آئے۔ تانبے کے نقشیں خاص دان، گلاب پاش، پاندان ، حسن دان، بادیے اورطبق قلعی گرکی دکان پر پہنچ گئے اورتاکید کردی گئی کہ قلعی کاسب سے قیمتی کشتہ استعمال کیاجائے۔ دیواروں، دروں، طاقوں اور محرابوں کی مرمت ہوئی اورپوری ڈیوڑھی کی پُتائی کے بعد شامیانے اورقناتیں لگاکر چھت میںقندیلیں لٹکادی گئیں اورمہمانوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ جگہ تخت بچھادیے گئے۔ سعیدہ بیگم کی خواہش کے مطابق احمدمیاں کی برات میں بستی کے ہندومسلمان سبھی نے شرکت کی۔ صبا دلہن بن کرآئی توخوشی میں رات بھرآتش بازی چھوٹتی رہی۔ ولیمے کی دعوت میں قرب وجوار کے گائوں والوں کوبھی بلایاگیا۔ اورپھرڈیوڑھی شہر کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہوگئی۔ بڑاساغسل خانہ سمٹ کر باتھ روم بن گیا۔ قدمچوں کارنگ سفید پڑگیا۔ چولھے سے گیس نکلنے لگی اورکمروں کی چھتیں اتنی نیچی کھسک آئیں کہ سعیدہ بیگم کا دم گھٹنے لگا۔ اس دن سعیدہ بیگم کو سخت کوفت ہوئی جب ان کاپیتل کاکٹورا انگریزی نسل کے پالتوکتے نے چاٹ لیا اورمانجنے کے لیے ان کے گھر میں توکیاپڑوس میں بھی راکھ نہ مل پائی۔ سردیاں گزرگئیں۔ نہ سقاوہ ،نہ تتیڑا، نہ آتش دان ،نہ انگیٹھی ،سعیدہ بیگم کے ہاتھ کوئلے کی آنچ کو ترستے ہی رہے۔ ہاں دن میں کئی کئی بارچائے پینے کوملتی رہی۔
’’تم لوگ کتنی چائے پیتے ہو؟ چائے پیتے میری توزبان موٹی ہوگئی ہے۔‘‘
آخرایک دن سعیدہ بیگم نے ٹوک ہی دیا۔
’’اوریہ جوتم نے نوکررکھا ہے بلاکاسُست ، دوپہر کاکھانا شام ہونے کوآتی ہے تب جاکے پکاپاتا ہے۔ کچھ کہو تو بڑبڑانا شروع ۔ کیایہاں نوکر کم ملتے ہیں؟
’’یہی بہت مشکل سے ملا ہے۔‘‘
احمد نے کہااورسعیدہ بیگم کی نظروں میں ریاضو، رحیما اورغفورخاں کے سعادت مند چہرے گھومنے لگے۔
’’مجھ سے تمہارا یہ چولھاجلانانہیں آتاورنہ میں ہی پکادیاکرتی۔ اوریہ جوسیٹی والا دیگچہ ہے ،اس میں کھانا بھلے ہی جلدی پکتا ہو مگر ہوتابالکل بے مزہ ہے۔ میں نے توایک وقت بھی پیٹ بھرنہیں کھایا۔‘‘
احمدمسکرانے لگا ،سنبھل کر بیٹھا اور سمجھانے کے انداز میں بولا۔
’’امی جان اس میں پکاہوا کھانا بہت مفید ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی بھاپ نکلنے نہیں پاتی، اس لیے سارے وٹامن ،مطلب ساری طاقت اندر رہتی ہے۔‘‘
’’توبیٹے تمہارے خیال میں کھوئے میں توبالکل طاقت نہیں ہوتی ہوگی۔‘‘
الغرض احمدکاکوئی جواب سعیدہ بیگم کو مطمئن نہ کرسکا۔ سرہانے رکھی پان کی پٹاری اٹھائی، پان لگایا، منہ میں رکھا، تھوڑی دیر چبایا اورپھرپلنگ کے نیچے جھانک کردیکھا ،وہاں پیکدان نہیں تھا۔ وہ اٹھیں اوربرآمدے میں لگے واش بیسن کی طرف چل دیں۔
دونوں وقت مل رہے ہیں ۔روشنی پوری طرح ختم نہیں ہوئی اوراندھیرا پائوں پسارنے لگا۔ سعیدہ بیگم چھوٹے سے لان کے ایک کونے میں بید کے اسٹول پر تنہا بیٹھی گھنٹوں سے گزرے زمانے کی مالا گوندھ رہی ہیں۔ کیاری میں منی پلانٹ کی بیل بائونڈری کے سہارے اوپر چڑھ رہی ہے۔ کیاری سوکھ چکی ہے۔ احمداورصبا کوفرصت ہی کہاں ہے ،اورسعیدہ بیگم پانی لگائیں توکس پودے میں ؟مولسری ہے ، نہ چنبیلی اورنہ شہتوت ۔ کچھ کانٹے دار پودے ہیں تو کچھ کوگملے میں قید کرکے بونابنادیاگیا ہے۔ کسی میں پانی زیادہ لگتا ہے ،کسی میں کم اورکسی میں بالکل نہیں۔ اب اس عمرمیں اجنبی پودوں سے کہاں تک مانوس ہواجائے۔ سعیدہ بیگم نے ایک نگاہ چھوٹے سے فلیٹ کی دیواروں پرڈالی۔ نگاہوں میں ڈیوڑھی کاصدردروازہ گھوم گیا۔ ان کی پالکی اندرداخل ہورہی ہے۔ انھوںنے سچے کام کے بھاری دوپٹے کے گھونگھٹ سے جھانکا۔ محلے بھر کی کنواری لڑکیوں نے چاروں طرف سے گھیررکھا ہے۔ وہ اسی طرح مہینوں تک دلہن بنی بیٹھی رہی تھیں۔ اماں بیگم نے سال بھرتک کسی کام سے ہاتھ نہیں لگانے دیاتھا۔ جب انھوںنے پہلی بارکھیر کی ہنڈیا میں ڈوئی چلائی تو اس پرنیازدے کر اماں بیگم نے اُسے پورے محلے میں تقسیم کیاتھا ۔ پریشر کوکر کی سیٹی نے انھیں چونکا دیا۔ احمدااورصبا کی شادی کوکچھ ہی ہفتے گزرے تھے اورصباکچن میں کھاناپکارہی تھی۔ وہ روزانہ سبزی گوشت پھل سبھی کچھ خود ہی خرید کرلاتی ہے۔ انھیں محسوس ہواکہ صبا کاوجود ان کے چاروں طرف ہیولے کی شکل میں گرد ش کررہا ہے اوران کااپنا وجود مٹتاجارہا ہے۔ صبا کہاں جارہی ہے؟کون آرہا ہے؟ کیوں آرہا ہے؟ کس کے لیے چائے بن رہی ہے؟ کمرے میں احمد کے دوستوں کے درمیان صبا کن باتوں پر قہقہہ لگارہی ہے؟ سعیدہ بیگم کوکسی بات کاعلم نہیں تھا۔ آخرکارایک دن انھوںنے احمدکوبلایااور سمجھانے لگیں۔
’’بیٹے یہ تمہیں کیاہوگیا ہے؟ ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بہو بازار۔۔۔‘‘
اس پروہ ہنس دیا اورسعیدہ بیگم کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔وہ خود کوبہت چھوٹامحسوس کرنے لگیں۔ یہ گھر، یہ ماحول، اپنابیٹا اپنی بہو سب کچھ پرایا سالگنے لگااوروہ اپنے بیٹے بہو سے بہت دورہوتی چلی گئیں۔
ایک دن احمدنے صباسے پوچھا۔
’’تم سے کوئی بات ہوئی ہے امی جان کی؟ کچھ خاموش رہتی ہیں،بالکل گم سم سی۔‘‘
’’نہیں تو،مجھ سے توکوئی بات نہیں ہوئی۔ میں نے ایک دن پوچھا بھی تھا، پہلے چپ رہیں پھر کچھ اس طرح جواب دیا کہ اس کے بعد کوئی بات پوچھنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔‘‘
احمدسوچنے لگا۔
’’معلوم نہیں امی جان کوکیاہوگیا ہے۔بالکل غیروں کی طرح برتائو کرتی ہیں ۔لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی۔۔۔‘‘
وقت گزرتارہا۔ ریسرچ مکمل ہونے کے بعد اسے عارضی نوکری مل گئی۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو اس نے سوچا کہ بیع نامہ ان ہی چھٹیوں میں کردیاجائے تاکہ باقی روپیہ مل سکے۔ لہٰذا سب کاقصبے جانے کاپروگرام بن گیا۔ سعیدہ بیگم نے ڈیوڑھی میں پہنچ کر سب سے پہلے شہتوت کے پیڑمیں پانی لگایا ۔بتّوکی اماں کوخبرہوئی تو وہ آگئیں۔ پوری ڈیوڑھی دھول مٹی سے اٹی پڑی تھی۔
باغیچہ سوکھ کر بنجر ہوگیاتھا۔ دیواروں اورچھتوں پرمکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے۔ بتّوکی اماں محلے کے دوچار بچوں کو بلالائیں۔ بدلو سقے کوخبرہوئی تومشک بھرکر لے آیا۔ کوڑاکرکٹ ایک طرف کرکے صحن میں چھڑکائو کردیاگیا۔ بتّوکی اماں سعیدہ بیگم کے کمرے کی صفائی میں جٹ پڑیں اورسعیدہ بیگم نے اپنی بہو کے کمرے کوجھاڑ پونچھ کرٹھیک کردیا۔ احمدبازار سے ضرورت بھر جنس لے آیا۔ سعیدہ بیگم نے پوری ڈیوڑھی کوسرپراٹھالیا۔
’’بتّوکی اماں جلدی سے چاول بین لو۔ بہو کے لیے مزعفر بنانا ہے۔‘‘
’’کیابیگم صاحبہ؟‘‘
’’ارے سب کچھ بھول گئیں۔ زردہ۔ اورکیا؟اوردیکھو کباب کاقیمہ اچھی طرح پیسنا۔ کمبخت ہریاابھی تک کھویا لے کرنہیں آیا۔ آج کل کے بچے اتنے کام چور ہیں کہ ذراسے کام میں جان نکلتی ہے اوریہ نتھن تو کسی دین کانہیں ہے ،میوے منگائے توسیلے ہوئے لے آیا۔ اب رحیما اورغفورخاں جیسے آدمی کہاں سے آئیں۔‘‘
پھرانھیں کچھ یادآیا اورچونک کر بولیں۔
’’ارے ہاں ،چائے کاپانی رکھنا تومیں بھول ہی گئی۔ بہوکوچائے پینے کی عادت ہے، بے چاری نے صبح سے نہیں پی۔‘‘
سعیدہ بیگم بہوکے کمرے میں گئیں تو وہاں صباکومحلے کی لڑکیاں گھیرے بیٹھی تھیں۔
’’یہ کیا۔۔۔اب تم گھر جائو ۔تھوڑی دیر توبہوکوآرام کرنے دو۔ کل آجانا۔ بہوکے ہاتھ سے کھیر پکے گی۔ سمجھیں۔۔۔‘‘
انھوںنے سب لڑکیوں کو رخصت کرکے بہو کو مسہری پرلٹایا اورکمرے کی دونوں کھڑکیاں کھول دیں۔
احمدنے لالا دیوی سرن کے نام بیع نامہ کرکے بقایا وصول کرلیا۔ دیوڑھی کی تجوری اپنے پرانے اندازمیں کھلنے اور بند ہونے لگی، شہتوت کے مرجھائے پتے سرسبز ہوگئے کہ اچانک سعیدہ بیگم کومعلوم ہوا،چھٹیاں گزرگئی ہیں۔ انھیں لگا کہ ابھی توایک لمحہ بھی نہیں گزرا اور۔۔۔
’’امی جان کل جانا ہے۔ آپ کی تیاری توسب ہے نا؟ صبح ذرا جلدی چل دیںگے۔۔۔‘‘
احمد یہ کہتا ہوا پنی مچھردانی میں جاکر سوگیا۔
رات آدھی سے زیادہ ہوچکی تھی ۔احمدنے کروٹ لی ۔ایک آہٹ سی ہوئی، آہٹ ڈیوڑھی کے دالان میں ہوئی تھی۔ آنکھیں کھولیں تودیکھا سعیدہ بیگم ہاتھ میں تسبیح لیے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی ہیں۔
’امی جان ابھی تک نہیں سوئیں۔۔۔؟‘‘
اس نے سوچا۔ اٹھنا چاہا مگراٹھانہیں، بس چپ چاپ لیٹاانھیں دیکھتا رہا۔ دالان کی محراب میں لالٹین لٹک رہی تھی جوہوا کے جھونکے سے ہلنے لگی تھی۔ سعیدہ بیگم کاسایہ کبھی طویل ہوکردبے پائوں ڈیوڑھی کی دیواروں پرچڑھنے لگتااورکبھی سمٹ کر ان کے قدموں میں دم توڑدیتا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صحن کوپارکرکے باغیچے میں لگے شہتوت کے قریب پہنچیں، پانی سے بھری بالٹی اٹھائی اورشہتوت کے پیڑ میں انڈیل دی۔وہاں سے لوٹ کر صدردروازے تک آئیں۔ نقش ونگاروالے برسوں پرانے موٹے کواڑ چھوئے ،پھردالان میں لٹکی لالٹین اتارکر زینے کی طرف مڑیں اورسیڑھیاں چڑھنے لگیں مگرآدھی سیڑھیوں تک ہی پہنچی ہوں گی کہ جانے کیاسوچ کرواپس اترآئیں۔۔۔۔۔۔!!