آخرت کا خیال بھی ساقی
آخرت کا خیال بھی ساقی بادۂ وہم کا ایاغ نہ ہو اس لئے بندگی سے ہوں بیزار خلد بھی ایک سبز باغ نہ ہو
آخرت کا خیال بھی ساقی بادۂ وہم کا ایاغ نہ ہو اس لئے بندگی سے ہوں بیزار خلد بھی ایک سبز باغ نہ ہو
میری بیوی نے بنا رکھی ہے فٹبال کی ٹیم مجھ کو معلوم نہیں اس کی تمنا کیا ہے بارہواں بچہ ہے گھر میں مرے آنے والا ''زندگی اور بتا تیرا ارادہ کیا ہے''
نالے کہیں بلبل کے سنائی نہیں دیتے عاشق بھی شب غم میں دہائی نہیں دیتے اب میرؔ نہیں ہیں تو گلی سونی پڑی ہے عطار کے لونڈے بھی دکھائی نہیں دیتے
پہنچا سیاہ فام اک اعلیٰ مقام پر دن ہو رہا ہے جھوم کے قربان شام پر گوروں نے شاعروں کو سنانے کے واسطے کالی غزل کہی ہے اوباماؔ کے نام پر
داستان عشق میں نے جب کہی سسرال میں میرے سالے گالیاں بے انتہا دینے لگے ساس نے ڈنڈا اٹھایا اور سسر نے چپلیں ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''
میں نے کہا گدھے سے میاں کچھ پڑھو لکھو بولا جناب ہو گئی بے عزتی تو پھر بے عزتی بھی ٹھیک ہے لیکن جناب من پڑھ لکھ کے بن گیا میں اگر آدمی تو پھر
قاتل تو قتل کر کے کبھی کا نکل گیا کرتی رہے اب اس کی پولیس عمر بھر تلاش آیا بیاں یہ جانچ کے بعد اب پولیس کا بکسے میں جا کے لیٹ گئی اپنے آپ لاش
ہاتھ میں پاپڑ لئے بیٹھا تھا میں دفعتاً اک مہ جبیں یاد آ گئی میں اسی کی یاد میں کھویا رہا اور بکری سارا پاپڑ کھا گئی
یہ منظر دیکھ کر بیوی نے کاٹا اپنے شوہر کو عجب وحشت سی برپا ہو گئی پردے پہ ٹی وی کے ہوئی طاری کچھ اتنی ہم پہ گھبراہٹ کہ پھر ہم نے نکلوا ڈالے ہیں سب احتیاطاً دانت بیوی کے
موت سے ملنے گلے دیکھ تو عاشق تیرے بن سنور کر ہوئے تیار ترے کوچے میں دیکھ کر موت کا منظر یہ عجب ہم آثمؔ بن گئے صورت دیوار ترے کوچے میں