چاند پر پہنچا کوئی جھانکا کوئی مریخ میں
چاند پر پہنچا کوئی جھانکا کوئی مریخ میں سیر کر آیا ہے کوئی چین کی دیوار پر ہم تو کاہل ہیں مگر اس دوڑ میں پیچھے نہیں لفٹ ہو تو ہم بھی چڑھ جائیں قطب مینار پر
چاند پر پہنچا کوئی جھانکا کوئی مریخ میں سیر کر آیا ہے کوئی چین کی دیوار پر ہم تو کاہل ہیں مگر اس دوڑ میں پیچھے نہیں لفٹ ہو تو ہم بھی چڑھ جائیں قطب مینار پر
جب ہٹائی اس نے چہرے سے نقاب آرزوؤں کے گھروندے ڈھ گئے میں تو چالیس کا ہوں اور پچپن کی وہ ''دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے''
اگر مل گئی حور جنت میں مجھ کو تو نخرہ بھی اس کا اٹھانا پڑے گا یہاں موت دیتی ہے انساں کو چھٹی وہاں جانے کب تک نبھانا پڑے گا
سلسلے اونچے خیالات سے جوڑے ہم نے جانور لاغر و کمزور نہ چھوڑے ہم نے مدرسے کے لئے پیسہ تھا کمانا یوں ہی بھینس تو بھینس ہے کٹوا دیئے گھوڑے ہم
عاشقوں کی تو ہے بھر مار ترے کوچے میں روز ہے گرمئ بازار ترے کوچے میں آ ذرا دیکھ تو نیچے تو اتر کر ظالم جمع ہیں تیرے خریدار ترے کوچے میں
مشاعروں میں ہوا ہوٹ جو مسلسل میں تو ایک شخص یہ بولا تو مسخرا بن جا اگر تو لوٹنا چاہے مشاعرے آثمؔ تو چھوڑ چھاڑ کے سب کچھ تو شاعرہ بن جا
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی ساغر کو ذرا تھام میں کچھ سوچ رہا ہوں پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا دے بادۂ گلفام میں کچھ سوچ رہا ...
مسکرا کر خطاب کرتے ہو عادتیں کیوں خراب کرتے ہو مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر کیا یہ کار ثواب کرتے ہو مفلسی اور کس کو کہتے ہیں! دولتوں کا حساب کرتے ہو صرف اک التجا ہے چھوٹی سی کیا اسے باریاب کرتے ہو ہم تو تم کو پسند کر بیٹھے تم کسے انتخاب کرتے ہو خار کی نوک کو لہو دے کر انتظار گلاب ...
چھیڑو تو اس حسین کو چھیڑو جو یار ہو ایسی خطا کرو جو ادب میں شمار ہو بیٹھی ہے تہمتوں میں وفا یوں گھری ہوئی جیسے کسی حسین کی گردن میں بار ہو دن رات مجھ پہ کرتے ہو کتنے حسین ظلم بالکل مری پسند کے مختار کار ہو کتنے عروج پر بھی ہو موسم بہار کا ہے پھول صرف وہ جو سر زلف یار ہو اک سچا ...
بس اس قدر ہے خلاصہ مری کہانی کا کہ بن کے ٹوٹ گیا اک حباب پانی کا ملا ہے ساقی تو روشن ہوا ہے یہ مجھ پر کہ حذف تھا کوئی ٹکڑا مری کہانی کا مجھے بھی چہرے پہ رونق دکھائی دیتی ہے یہ معجزہ ہے طبیبوں کی خوش بیانی کا ہے دل میں ایک ہی خواہش وہ ڈوب جانے کی کوئی شباب کوئی حسن ہے روانی ...