شاعری

تمام شخصیت اس کی حسیں نظر آئی

تمام شخصیت اس کی حسیں نظر آئی جب اس کے قتل کی اخبار میں خبر آئی شریف لوگ چڑھے جب نہیں ہیں کوٹھوں پر تو کس کے ساتھ یہ تہذیب بام پر آئی گزر کے مجھ کو خد و خال کے سرابوں سے تمام شہر میں بے چہرگی نظر آئی خموش کیا ہوئی بڑھیا سفید بالوں کی کہانیوں کی کوئی رات پھر نہ گھر آئی عجیب شخص ...

مزید پڑھیے

شروع عشق میں لوگوں نے اتنی شدت کی

شروع عشق میں لوگوں نے اتنی شدت کی کہ رفتہ رفتہ کمی ہو گئی محبت کی یہ کارگاہ ذہانت ہے اس میں چھوٹے کیا بڑے بڑوں نے یہاں پر بڑی حماقت کی جہاں سے علم کا ہم کو غرور ہوتا ہے وہیں سے ہوتی ہے بس ابتدا جہالت کی جو آدمی ہے تلاش سکوں میں صدیوں سے اسی نے کر دی یہاں انتہا بھی وحشت کی پرانے ...

مزید پڑھیے

گھر کا رستہ جو بھول جاتا ہوں

گھر کا رستہ جو بھول جاتا ہوں کیا بتاؤں کہاں سے آتا ہوں ذہن میں خواب کے محل کی طرح خود ہی بنتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں آج بھی شام غم! اداس نہ ہو مانگ کر میں چراغ لاتا ہوں میں تو اے شہر کے حسیں رستو گھر سے ہی قتل ہو کے آتا ہوں روز آتی ہے ایک شخص کی یاد روز اک پھول توڑ لاتا ہوں ہائے ...

مزید پڑھیے

چلتے چلتے سال کتنے ہو گئے

چلتے چلتے سال کتنے ہو گئے پیڑ بھی رستے کے بوڑھے ہو گئے انگلیاں مضبوط ہاتھوں سے چھٹیں بھیڑ میں بچے اکیلے ہو گئے حادثہ کل آئنہ پر کیا ہوا ریزہ ریزہ عکس میرے ہو گئے ڈھونڈیئے تو دھوپ میں ملتے نہیں مجرموں کی طرح سائے ہو گئے میری خاموشی پہ تھے جو طعنہ زن شور میں اپنے ہی بہرے ہو ...

مزید پڑھیے

ہم نے جو قصیدوں کو مناسب نہیں سمجھا

ہم نے جو قصیدوں کو مناسب نہیں سمجھا شہ نے بھی ہمیں اپنا مصاحب نہیں سمجھا کانٹے بھی کچھ اس رت میں طرحدار نہیں تھے کچھ ہم نے الجھنا بھی مناسب نہیں سمجھا خود قاتل اقدار شرافت ہے زمانہ الزام ہے میں حفظ مراتب نہیں سمجھا ہم عصروں میں یہ چھیڑ چلی آئی ہے اظہرؔ یاں ذوقؔ نے غالبؔ کو بھی ...

مزید پڑھیے

جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے

جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں ہم سایے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے پہلے بھی لوگ ملتے تھے لیکن تعلقات انگڑائی کی طرح تو کبھی ...

مزید پڑھیے

ابھی بچھڑا ہے وہ کچھ روز تو یاد آئے گا

ابھی بچھڑا ہے وہ کچھ روز تو یاد آئے گا نقش روشن ہے مگر نقش ہے دھندلائے گا گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا میری قسمت تو یہی ہے کہ بھٹکنا ہے مجھے راستے تو ...

مزید پڑھیے

کچھ عارضی اجالے بچائے ہوئے ہیں لوگ

کچھ عارضی اجالے بچائے ہوئے ہیں لوگ مٹھی میں جگنوؤں کو چھپائے ہوئے ہیں لوگ اس شخص کو تو قتل ہوئے دیر ہو گئی اب کس لیے یہ بھیڑ لگائے ہوئے ہیں لوگ برسوں پرانے درد نہ اٹکھیلیاں کریں اب تو نئے غموں کے ستائے ہوئے ہیں لوگ آنکھیں اجڑ چکی ہیں مگر رنگ رنگ کے خوابوں کی اب بھی فصل لگائے ...

مزید پڑھیے

فکر میں ہیں ہمیں بجھانے کی

فکر میں ہیں ہمیں بجھانے کی آندھیاں میرؔ کے زمانے کی میرا گھر ہے پرانے وقتوں کا اس کی آنکھیں نئے زمانے کی اب کوئی بات بھولتا ہی نہیں ہائے وہ عمر بھول جانے کی اپنے اندر کا شور کم تو ہوا خامشی میں کتاب خانے کی ایک منظر تھا یاد رکھنے کا ایک تصویر تھی بنانے کی

مزید پڑھیے

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا

اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا یاد رکھنے کو ملاقات کے جگنو لے جا میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوشبو لے جا آ ذرا دیر کو اور مجھ سے ملاقات کے بعد سوچنے کے لیے روشن کوئی پہلو لے جا حادثے اونچی اڑانوں میں بہت ہوتے ہیں تجربہ تجھ کو نہیں ہے مرے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4738 سے 5858