تمام شخصیت اس کی حسیں نظر آئی

تمام شخصیت اس کی حسیں نظر آئی
جب اس کے قتل کی اخبار میں خبر آئی


شریف لوگ چڑھے جب نہیں ہیں کوٹھوں پر
تو کس کے ساتھ یہ تہذیب بام پر آئی


گزر کے مجھ کو خد و خال کے سرابوں سے
تمام شہر میں بے چہرگی نظر آئی


خموش کیا ہوئی بڑھیا سفید بالوں کی
کہانیوں کی کوئی رات پھر نہ گھر آئی


عجیب شخص تھا کچھ دیر گفتگو جو ہوئی
دل و دماغ میں اک روشنی اتر آئی


دعائیں مانگ رہے تھے ہوا کی لوگ مگر
ہوا چلی بھی تو آنکھوں میں دھول بھر آئی


گلاب ٹوٹ کے بکھرا تھا کل جہاں اظہرؔ
اسی مقام پہ خوشبو مجھے نظر آئی