کچھ عارضی اجالے بچائے ہوئے ہیں لوگ

کچھ عارضی اجالے بچائے ہوئے ہیں لوگ
مٹھی میں جگنوؤں کو چھپائے ہوئے ہیں لوگ


اس شخص کو تو قتل ہوئے دیر ہو گئی
اب کس لیے یہ بھیڑ لگائے ہوئے ہیں لوگ


برسوں پرانے درد نہ اٹکھیلیاں کریں
اب تو نئے غموں کے ستائے ہوئے ہیں لوگ


آنکھیں اجڑ چکی ہیں مگر رنگ رنگ کے
خوابوں کی اب بھی فصل لگائے ہوئے ہیں لوگ


کیا رہ گیا ہے شہر میں کھنڈرات کے سوا
کیا دیکھنے کو اب یہاں آئے ہوئے ہیں لوگ


کچھ دن سے بے دماغی اظہرؔ ہے رنگ پر
بستی میں اس کو میرؔ بنائے ہوئے ہیں لوگ