لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا
لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا ہوا کے رخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا کشید مے پہ ہے کیسا فساد حاکم شہر تری گرہ سے ہے کیا بندۂ خدا جاتا خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا ...