شاعری

لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا

لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا ہوا کے رخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا کشید مے پہ ہے کیسا فساد حاکم شہر تری گرہ سے ہے کیا بندۂ خدا جاتا خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا ...

مزید پڑھیے

یہ فضائے ساز و مضرب یے ہجوم تاج داراں

یہ فضائے ساز و مضرب یے ہجوم تاج داراں چلو آؤ ہم بھی نکلیں بہ لباس سوگواراں یہ فسون روئے لیلیٰ بہ عذاب جان مجنوں وہی حسن دشت و در ہے بہ طواف جاں نثاراں غم کارواں کا آخر کوئی رخ نہ اس سے چھوٹا وہ حدیث کہہ گئی ہے یہ ہوائے رہ گزاراں وہ تعصب برہمن جو صنم کو ڈھالتا ہے رخ نقش پر بھی آیا ...

مزید پڑھیے

اس گفتگو سے یوں تو کوئی مدعا نہیں

اس گفتگو سے یوں تو کوئی مدعا نہیں دل کے سوا حریف کوئی دوسرا نہیں آنکھیں ترس گئیں تمہیں دیکھے ہوئے مگر گھر قابل ضیافت مہماں رہا نہیں ناقوس کوئی بحر کی تہہ میں ہے نعرہ زن ساحل کی یہ صدا تو کوئی ناخدا نہیں مانا کہ زندگی میں ہے ضد کا بھی ایک مقام تم آدمی ہو بات تو سن لو خدا ...

مزید پڑھیے

ہوا آشفتہ تر رکھتی ہے ہم آشفتہ حالوں کو

ہوا آشفتہ تر رکھتی ہے ہم آشفتہ حالوں کو برتنا چاہتی ہے دشت مجنوں کے حوالوں کو نہ آیا کچھ مگر ہم کشتگان شوق کو آیا ہوا کی زد میں آخر بے سپر رکھنا خیالوں کو خدا رکھے تجھے اے نقش دیوار صنم خانہ کہیں گے لوگ دیوار ابد تیری مثالوں کو اندھیری رات میں اک دشت وحشت زندگی نکلی چلا جاتا ...

مزید پڑھیے

آج مقابلہ ہے سخت میر سپاہ کے لئے

آج مقابلہ ہے سخت میر سپاہ کے لئے ہو گئے سر کئی قلم ایک کلاہ کے لئے تازہ رخیٔ کائنات ڈھونڈ رہی ہے آئنہ جستجو ہے ہزار میں ایک گواہ کے لئے کھل ہی گیا طلسم دوست عین وصال میں کہ تھی اک شب ہجر زندگی لذت آہ کے لئے اک شب خود نمائی میں عصمت بے مقام نے کتنے سوال کر لئے رمز گناہ کے ...

مزید پڑھیے

سب پیچ و تاب شوق کے طوفان تھم گئے

سب پیچ و تاب شوق کے طوفان تھم گئے وہ زلف کھل گئی تو ہواؤں کے خم گئے ساری فضا تھی وادئ مجنوں کی خواب ناک جو روشناس مرگ محبت تھے کم گئے وحشت سی ایک لالۂ خونیں کفن سے تھی اب کے بہار آئی تو سمجھو کہ ہم گئے اب جن کے غم کا تیرا تبسم ہے پردہ دار آخر وہ کون تھے کہ بہ مژگان نم گئے اے جادہ ...

مزید پڑھیے

نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے

نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے وہ دور عشق تھا کہ بڑے معرکے ہوئے اتنا تو تھا کہ وہ بھی مسافر نواز تھے مجنوں کے ساتھ تھے جو بگولے لگے ہوئے آئی ہے اس سے پچھلے پہر گفتگو کی یاد وہ خلوت وصال وہ پردے چھٹے ہوئے کیوں ہم نفس چلا ہے تو ان کے سراغ میں جس عشق بے غرض کے نشاں ہیں مٹے ...

مزید پڑھیے

جو دشمن ہے اسے ہمدم نہ سمجھو

جو دشمن ہے اسے ہمدم نہ سمجھو نمک کو زخم کا مرہم نہ سمجھو سکوں ملتا ہے دل سے دل کو لیکن ہر اک ساغر کو جام جم نہ سمجھو جو پی لو گے تو مٹ جانا پڑے گا یہ ہے زہراب غم زمزم نہ سمجھو تم اپنے دامن حرص و ہوس کو مثال دامن مریم نہ سمجھو نہ ہو اپنی خطاؤں پر جو نادم اسے ہم مشرب آدم نہ ...

مزید پڑھیے

تو اگر شمع محبت کو فروزاں کر دے

تو اگر شمع محبت کو فروزاں کر دے تیرگی ظلم کی چاک اپنا گریباں کر دے درد کیا شے ہے زمانے پہ نمایاں کر دے غم کی ہر موج سے ہنگامۂ طوفاں کر دے روشن اس طرح سے کر علم و عمل کی مشعل کم نگاہی کے اندھیرے میں چراغاں کر دے دیکھی جاتی نہیں بے کیف فضائے گلشن اٹھ نئے سر سے اسے خلد بداماں کر ...

مزید پڑھیے

اشکوں سے تپش سینے کی ہوتی ہے عیاں اور

اشکوں سے تپش سینے کی ہوتی ہے عیاں اور جب آگ بجھاتا ہوں تو ہوتا ہے دھواں اور ہیں ایک ہی گلشن میں مگر فرق تو دیکھو پھولوں کا جہاں اور ہے کانٹوں کا جہاں اور شاید یہ کرشمہ ہے مرے نقش وفا کا وہ جتنا مٹاتے ہیں ابھرتا ہے نشاں اور سر اپنا اٹھا لوں جو در یار سے ناصح سجدہ یہ محبت کا ادا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4717 سے 5858