آج مقابلہ ہے سخت میر سپاہ کے لئے
آج مقابلہ ہے سخت میر سپاہ کے لئے
ہو گئے سر کئی قلم ایک کلاہ کے لئے
تازہ رخیٔ کائنات ڈھونڈ رہی ہے آئنہ
جستجو ہے ہزار میں ایک گواہ کے لئے
کھل ہی گیا طلسم دوست عین وصال میں کہ تھی
اک شب ہجر زندگی لذت آہ کے لئے
اک شب خود نمائی میں عصمت بے مقام نے
کتنے سوال کر لئے رمز گناہ کے لئے
صورت گرد کارواں ہے غم منزل جہاں
خواب جنون تازہ کار چاہیے راہ کے لئے
آتش کیمیا گراں کام نہ آ سکی کوئی
سرمہ ہے خاک دل مری چشم سیاہ کے لئے
میری خود آگہی بھی کی تیرے وصال نے طلب
ہجر ہزار شب کے بعد ایک گناہ کے لئے