شاعری

دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے

دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے سرد ہوا یا ٹوٹا تاؤ پوری رات ادھورا چاند میرے آنگن کی مٹی کو جانے کون بھگو جاتا ہے اک اک کر کے دھوپ کے سارے سرخ پرندے مر جاتے ہیں ریت کے زرد سمندر پر جب سورج پاؤں دھو جاتا ہے تجھ سے بچھڑ کر ...

مزید پڑھیے

کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں

کوئی ایسی بات ہے جس کے ڈر سے باہر رہتے ہیں ہم جو اتنی رات گئے تک گھر سے باہر رہتے ہیں پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں جب تک رہتے ہیں آنگن میں ہنگامہ تنہائی کے خاموشی کے سائے بام و در سے باہر رہتے ہیں جب سے بے چہروں کی ...

مزید پڑھیے

کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ

کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ نئی موجوں میں رہتا ہے پرانے پانیوں کا دکھ کہیں مدت ہوئی اس کو گنوایا تھا مگر اب تک مری آنکھوں میں ہے ان بے سر و سامانیوں کا دکھ تو کیا تو بھی مری اجڑی ہوئی بستی سے گزرا ہے تو کیا تو نے بھی دیکھا ہے مری ویرانیوں کا دکھ شکست غم کے لمحوں میں ...

مزید پڑھیے

رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر

رہ گیا دیدۂ پر آب کا ساماں ہو کر وہ جو رہتا تھا مرے ساتھ مری جاں ہو کر جانے کس شوخ کے آنچل نے شرارت کی ہے چاند پھرتا ہے ستاروں میں پریشاں ہو کر آتے جاتے ہوئے دستک کا تکلف کیسا اپنے گھر میں بھی کوئی آتا ہے مہماں ہو کر اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر کتنا گمنام ہوا ہوں میں ...

مزید پڑھیے

ہم اے غم حیات نہ جانے کہاں رہے

ہم اے غم حیات نہ جانے کہاں رہے جب حسن اتفاق سے وہ مہرباں رہے جس وقت چھڑ گئی ہے نگار سحر کی بات تارے شب فراق مرے ہم زباں رہے کیا اہتمام حسن چمن کر سکے بیاں جب خود دل بہار میں پیہم خزاں رہے پھر زندگی کرے نہ کوئی اور آرزو گر اس کے ساتھ ایک غم جاوداں رہے یا منزلوں کے ذکر سے تم نے دیا ...

مزید پڑھیے

پھونک دیں گے مرے اندر کے اجالے مجھ کو

پھونک دیں گے مرے اندر کے اجالے مجھ کو کاش دشمن مرا قندیل بنا لے مجھ کو ایک سایہ ہوں میں حالات کی دیوار میں قید کوئی سورج کی کرن آ کے نکالے مجھ کو اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو میں سمندر ہوں کہیں ڈوب نہ جاؤں خود میں اب کوئی موج ...

مزید پڑھیے

ذرا سی دیر میں وہ جانے کیا سے کیا کر دے

ذرا سی دیر میں وہ جانے کیا سے کیا کر دے کسے چراغ بنا دے کسے ہوا کر دے مرے مزاج کے کوفے پہ جس کا قبضہ ہے خبر نہیں کہ وہ کب مجھ کو کربلا کر دے یہ کون شخص ہے اس لفظ جیسا لگتا ہے مرے وجود کے مطلب کو جو ادا کر دے

مزید پڑھیے

میں اس کی بات کے لہجے کا اعتبار کروں

میں اس کی بات کے لہجے کا اعتبار کروں کروں کہ اس کا نہ میں آج انتظار کروں میں صرف سایہ ہوں اپنا مگر یہ ضد ہے مجھے کہ اپنے آپ کو خود سے الگ شمار کروں عجب مزاج ہے اس کا بھی چاہتا ہے کہ میں بطور وضع فقط خود کو اختیار کروں میں اک اتھاہ سمندر ہوں اس خیال میں غرق کہ ڈوب جاؤں میں خود میں ...

مزید پڑھیے

لیا ہے کس قدر سختی سے اپنا امتحاں ہم نے

لیا ہے کس قدر سختی سے اپنا امتحاں ہم نے کہ اک تلوار رکھ دی زندگی کے درمیاں ہم نے ہمیں تو عمر بھر رہنا تھا خوابوں کے جزیروں میں کناروں پر پہنچ کر پھونک ڈالیں کشتیاں ہم نے ہمارے جسم ہی کیا سائے تک جسموں کے زخمی ہیں دلوں میں گھونپ لیں ہیں روشنی کی برچھیاں ہم نے ہمیں دی جائے گی ...

مزید پڑھیے

نکلنا خود سے ممکن ہے نہ ممکن واپسی میری

نکلنا خود سے ممکن ہے نہ ممکن واپسی میری مجھے گھیرے ہوئے ہے ہر طرف سے بے رخی میری بجھا کے رکھ گیا ہے کون مجھ کو طاق نسیاں پر مجھے اندر سے پھونکے دے رہی ہے روشنی میری میں خوابوں کے محل کی چھت سے گر کے خود کشی کر لوں حقیقت سے اگر ممکن نہیں ہے دوستی میری میں اپنے جسم کے مردہ عجائب ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4697 سے 5858