ہم اے غم حیات نہ جانے کہاں رہے

ہم اے غم حیات نہ جانے کہاں رہے
جب حسن اتفاق سے وہ مہرباں رہے


جس وقت چھڑ گئی ہے نگار سحر کی بات
تارے شب فراق مرے ہم زباں رہے


کیا اہتمام حسن چمن کر سکے بیاں
جب خود دل بہار میں پیہم خزاں رہے


پھر زندگی کرے نہ کوئی اور آرزو
گر اس کے ساتھ ایک غم جاوداں رہے


یا منزلوں کے ذکر سے تم نے دیا فریب
یا ہم ہی محو گرد رہ کارواں رہے


ناکامیوں کا اب یہ تقاضا ہے بار بار
ہر وقت ایک کشمکش امتحاں رہے


تاریک راستے میں بھی عظمتؔ ہمارے ساتھ
زخم وفا میں رنگ مہ و کہکشاں رہے