ذرا سی دیر میں وہ جانے کیا سے کیا کر دے

ذرا سی دیر میں وہ جانے کیا سے کیا کر دے
کسے چراغ بنا دے کسے ہوا کر دے


مرے مزاج کے کوفے پہ جس کا قبضہ ہے
خبر نہیں کہ وہ کب مجھ کو کربلا کر دے


یہ کون شخص ہے اس لفظ جیسا لگتا ہے
مرے وجود کے مطلب کو جو ادا کر دے