شاعری

یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی

یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی اگر میں زخم ہوں اس کا تو بھر کے دیکھوں گی کسی طرف کوئی زینہ نظر نہیں آتا میں اس کے ذہن میں کیوں کر اتر کے دیکھوں گی میں روشنی ہوں تو میری پہنچ کہاں تک ہے کبھی چراغ کے نیچے بکھر کے دیکھوں گی سنا دوراہے پہ امید کے سرائے ہے ایک میں اپنی راہ اسی ...

مزید پڑھیے

ہٹا کے میز سے اک روز آئینہ میں نے

ہٹا کے میز سے اک روز آئینہ میں نے پھر اپنے آپ سے رکھا نہ واسطہ میں نے جب اپنے آپ سے پہچان اپنی کھو کے ملی تو خود ہی کاٹ دیا اپنا راستہ میں نے میں کم سنی میں بھی گڑیا کبھی نہیں کھیلی پلوں میں طے کیا برسوں کا فاصلہ میں نے چراغ ہوں مجھے جب دھوپ راس آ نہ سکی تو خود سکوڑ لیا اپنا دائرہ ...

مزید پڑھیے

میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی

میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی کوئی موسم میری امیدوں کو راس آیا نہیں فصل اندھیاروں کی کاٹی اور دیے بوتی رہی کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی راستے میں اس قدر یادوں کے دوراہے پڑے آج ماضی کی ...

مزید پڑھیے

پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا

پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا جہاں چلتا ہے اپنے ساتھ خالی راستہ اپنا کسی دریا کی صورت بہہ رہی ہوں اپنے اندر میں مرا ساحل بڑھاتا جا رہا ہے فاصلہ اپنا لٹا کے اپنا چہرہ تک رہی ہوں اپنا منہ جیسے کوئی پاگل الٹ کے دیکھتا ہو آئینہ اپنا یہ بستی لوگ کہتے ہیں مرے خوابوں کی بستی ...

مزید پڑھیے

تو آیا تو دوار بھڑے تھے دیپ بجھا تھا آنگن کا

تو آیا تو دوار بھڑے تھے دیپ بجھا تھا آنگن کا سدھ بسرانے والے مجھ کو ہوش کہاں تھا تن من کا جانے کن زلفوں کی گھٹائیں چھائی ہیں میری نظروں میں روتے روتے بھیگ چلا اس سال بھی آنچل ساون کا تھوڑی دیر میں تھک جائیں گے نیل کمل سی رین کے پاؤں تھوڑی دیر میں تھم جائے گا راگ ندی کے جھانجھن ...

مزید پڑھیے

تھکن سے چور ہوں لیکن رواں دواں ہوں میں

تھکن سے چور ہوں لیکن رواں دواں ہوں میں نئی سحر کے چراغوں کا کارواں ہوں میں ہوائیں میرے ورق لوٹ لوٹ دیتی ہیں نہ جانے کتنے زمانوں کی داستاں ہوں میں ہر ایک شہر نگاراں سمجھ رہا ہے مجھے ذرا قریب سے دیکھو دھواں دھواں ہوں میں کسی سے بھیڑ میں چہرہ بدل گیا ہے مرا تو سارے آئنہ خانوں سے ...

مزید پڑھیے

وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو

وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو اور ڈھونڈے گا کہیں میرے علاوہ مجھ کو کس قدر اس کو سرابوں نے ستایا ہوگا دور ہی سے جو سمجھتا رہا چشمہ مجھ کو میری امید کے سورج کو ڈبو کے ہر شام وہ دکھاتا رہا دریا کا تماشہ مجھ کو جب کسی رات کبھی بیٹھ کے مے خانے میں خود کو بانٹے گا تو دے گا مرا ...

مزید پڑھیے

مرے مزاج کو سورج سے جوڑتا کیوں ہے

مرے مزاج کو سورج سے جوڑتا کیوں ہے میں دھوپ ہوں مجھے ناحق سکوڑتا کیوں ہے اگر یہ سچ ہے کہ تو میرا خواب ہے تو بتا کہ آنکھ لگتے ہی مجھ کو جھنجھوڑتا کیوں ہے ادھر بھی تو ہے ادھر بھی جو صرف تو ہی ہے تو پھر یہ بیچ کی دیوار توڑتا کیوں ہے میں تیرے وعدے کو جب آنسوؤں سے دھوتی ہوں ہر ایک لفظ ...

مزید پڑھیے

لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں

لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں بدن چھتوں کی طرح دھوپ میں جھلستے ہیں ہم ایسے پیڑ ہیں جو چھاؤں باندھ کر رکھ دیں شدید دھوپ میں خود سائے کو ترستے ہیں ہر ایک جسم کے چاروں طرف سمندر ہے یہاں عجیب جزیروں میں لوگ بستے ہیں سبھی کو دھن ہے کہ شیشے کے بام و در ہوں مگر یہ دیکھتے نہیں ...

مزید پڑھیے

کس قدر کم اساس ہیں کچھ لوگ

کس قدر کم اساس ہیں کچھ لوگ صرف اپنا قیاس ہیں کچھ لوگ جن کو دیوار و در بھی ڈھک نہ سکے اس قدر بے لباس ہیں کچھ لوگ مطمئن ہیں بہت ہی دنیا سے پھر بھی کتنے اداس ہیں کچھ لوگ وہ برے ہوں بھلے ہوں جیسے ہوں کچھ ہوں لوگوں کو راس ہیں کچھ لوگ موسموں کا کوئی اثر ہی نہیں ان پہ جنگل کی گھاس ہیں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4698 سے 5858