دیوار رنگ
مل بھی جائے شہریت امریکہ کی تو کیا ہوا پھر بھی ہم لاہور کے ہیں پھر بھی گلبرگے کے ہیں ڈاکٹر بھی ہو گئے انجینئر بھی ہو گئے گندمی ہے رنگ اگر تو دوسرے درجے کے ہیں
مل بھی جائے شہریت امریکہ کی تو کیا ہوا پھر بھی ہم لاہور کے ہیں پھر بھی گلبرگے کے ہیں ڈاکٹر بھی ہو گئے انجینئر بھی ہو گئے گندمی ہے رنگ اگر تو دوسرے درجے کے ہیں
خانساماں ہے مصر ہر شب چکن بنوایئے حاضری پر ''حاضر و غائب ٹماٹر'' کھائیے جیب کہتی ہے چھری کانٹے فقط کھڑکائیے لنچ پہ شلجم ڈنر میں توریاں فرمائیے مطبخوں میں ''بوئے جوئے مولیاں'' ٹن ٹن میاں دیو کی نندن ہو یا گل شیر خاں ٹن ٹن میاں کھردرے پالش سے خستہ بوٹ چمکائیں گے کیا ''تخت پوشی درزیوں'' ...
یہ کاروبار جبر و جہالت نہیں قبول یہ فسطائیت کسی حالت نہیں قبول انسان کا بھی قتل ہے انصاف کا بھی قتل انصاف ماورائے عدالت نہیں قبول
شہر کو رونق ملے ہے گاؤں سے پیڑ کی طاقت نہ جانچو چھاؤں سے محض قد سے شخص قد آور نہیں اپنی قامت ڈھونڈھ اپنے پاؤں سے
یہ کیسی گرما گرمی چل رہی ہے اہل دانش میں نظام مملکت کس نے بگاڑا ہے سنوارا تھا ہمارا ملک اگر قرضے میں جکڑا ہے تو کیا حیرت ہمارے ملک کا تو اک وزیر اعظم ادھارا تھا
تجربات تلخ نے ہر چند سمجھایا مجھے دل مگر دل تھا اسی محفل میں لے آیا مجھے حسن ہر شے پر توجہ کی نظر کا نام ہے بارہا کانٹوں کی رعنائی نے چونکایا مجھے دور تک دامان ہستی پر دیئے جلتے گئے دیر تک عمر گزشتہ کا خیال آیا مجھے ہر نظر بس اپنی اپنی روشنی تک جا سکی ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک ...
اتنی تو خبر تھی ہمیں گھر بھی نہیں رکھتے اور یہ بھی کہ پگڑی تلے سر بھی نہیں رکھتے مہنگائی کی تحلیل میں جب جسم ٹٹولا معلوم ہوا ہم تو کمر بھی نہیں رکھتے
زندگی سے بھی کب ہوئے مغلوب اپنے اسلوب پر ہی جیتے تھے ہر حوالے سے منفرد غالبؔ داڑھی رکھتے شراب پیتے تھے
پن کھلا ٹائی کھلی بکلس کھلا کالر کھلا کھلتے کھلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھلا آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر کھلا لو خطیب شہر کی تقریر کا جوہر کھلا سچ ہے مشرق اور مغرب ایک ہو سکتے نہیں اس طرف بیوی کھلی ہے اس طرف شوہر کھلا تیرگی قسمت میں آتی ہے تو جاتی ہی نہیں میرے گھر کے ...
حسن کو غایت نظر جانا یہ مگر ان کو دیکھ کر جانا کوئی آواز دردناک آئی چلنے والو ذرا ٹھہر جانا لمحے لمحے کو بے کراں پایا عمر کو عمر مختصر جانا راحتوں پر بھی اپنا حق سمجھا مشکلوں کو بھی ہم سفر جانا جتنا بڑھتا گیا شعور ہنر خود کو اتنا ہی بے ہنر جانا