تجربات تلخ نے ہر چند سمجھایا مجھے

تجربات تلخ نے ہر چند سمجھایا مجھے
دل مگر دل تھا اسی محفل میں لے آیا مجھے


حسن ہر شے پر توجہ کی نظر کا نام ہے
بارہا کانٹوں کی رعنائی نے چونکایا مجھے


دور تک دامان ہستی پر دیئے جلتے گئے
دیر تک عمر گزشتہ کا خیال آیا مجھے


ہر نظر بس اپنی اپنی روشنی تک جا سکی
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے


ہر رواں لمحہ بڑی تفصیل سے ملتا گیا
ہر گزرتے رنگ نے خود رک کے ٹھہرایا مجھے


غنچہ و گل مہر و مہ ابر و ہوا رخسار و لب
زندگی نے ہر قدم پر یاد فرمایا مجھے