رکھتے ہیں جو ہم چاہ تمہاری دل میں
رکھتے ہیں جو ہم چاہ تمہاری دل میں آرام کی ہے امیدواری دل میں تم حکم قرار کو نہ دو گے جب تک البتہ رہے گی بے قراری دل میں
رکھتے ہیں جو ہم چاہ تمہاری دل میں آرام کی ہے امیدواری دل میں تم حکم قرار کو نہ دو گے جب تک البتہ رہے گی بے قراری دل میں
پان اس کے لبوں پہ اس قدر ہے زیبا ہو رنگ پہ جس کے سرخیٔ لعل فدا ہر فندق انگشت سے اس دست کو گر گلدستۂ باغ حسن کہیے تو بجا
ناصح نہ سنا سخن مجھے جس تس کے جو تو نے کہا یہ آوے جی میں کس کے کیوں کر نہ ملوں بھلا جی میں اس سے آہ دل رہ نہ سکے بغیر دیکھے جس کے
رکھتی ہے جو خوش چاہ تمہاری ہم کو اور کرتی ہے شاد باری باری ہم کو کچھ دیر جو کہ تھی ہم نے دل دیتے وقت اب تک ہے اسی کی سرشاری ہم کو
آئینہ جو ہاتھ اس کے نے تا دیر لیا اس دیر سے خجلت نے ہمیں گھیر لیا جب ہم نے کہا کیا یہی عاشق ہے میاں یہ سنتے ہی آئینے سے منہ پھیر لیا
ہوں کیوں نہ بتوں کی ہم کو دل سے چاہیں ہیں ناز و ادا میں ان کو کیا کیا راہیں دل لینے کو سینے سے لپٹ کر کیا کیا ڈالے ہیں گلے میں پتلی پتلی باہیں
اس زلف نے ہم سے لے کے دل بستہ کیا ابرو نے کجی کے ڈھب کو پیوستہ کیا آنکھوں نے نگہ نے اور مژہ نے کیا کیا کیفی کیا دیوانہ کیا خستہ کیا
اے دل جو یہ آنکھ آج لڑائی اس نے اور پل میں لڑا کے پھر جھکائی اس نے اپنی بے باکی اور حیا کی خوبی تھی ہم کو دکھانی سو دکھائی اس نے
ساقی سے جو ہم نے مے کا اک جام لیا پیتے ہی نشے کا یہ سرانجام لیا معلوم نہیں جھک گئے یا بیٹھے رہے یا گر پڑے یا کسی نے پھر تھام لیا
ہم دیکھ کے تم سے رخ آرام میاں خوش رہتے ہیں دل میں سحر و شام میاں دیوانے تمہارے جب ادا کے ٹھہرے پھر حسن پری سے ہمیں کیا کام میاں