ہے محبت حیات کی لذت
ہے محبت حیات کی لذت ورنہ کچھ لذت حیات نہیں کیا اجازت ہے ایک بات کہوں وہ مگر خیر کوئی بات نہیں
ہے محبت حیات کی لذت ورنہ کچھ لذت حیات نہیں کیا اجازت ہے ایک بات کہوں وہ مگر خیر کوئی بات نہیں
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں
یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال متاع جاں ہیں ترے قول اور قسم کی طرح گذشتہ سال انہیں میں نے گن کے رکھا تھا کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح
جو حقیقت ہے اس حقیقت سے دور مت جاؤ لوٹ بھی آؤ ہو گئیں پھر کسی خیال میں گم تم مری عادتیں نہ اپناؤ
پسینے سے مرے اب تو یہ رومال ہے نقد ناز الفت کا خزینہ یہ رومال اب مجھی کو بخش دیجے نہیں تو لائیے میرا پسینہ
جو رعنائی نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ ہے لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم جز حریفان ستم کس کو پکارا جائے وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم حاکم وقت کو مسند سے اتارا جائے
کیا بتاؤں کہ سہ رہا ہوں میں کرب خود اپنی بے وفائی کا کیا میں اس کو تری تلاش کہوں؟ دل میں اک شوق ہے جدائی کا
مری جب بھی نظر پڑتی ہے تجھ پر مری گلفام جان دل ربائی مرے جی میں یہ آتا ہے کہ مل دوں ترے گالوں پہ نیلی روشنائی
شرم دہشت جھجھک پریشانی ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں