ربط
روح کے تحفظ میں جسم کچلا جاتا تھا اک زمانہ ایسا تھا اک زمانہ ایسا ہے روح کچلی جاتی ہے جسم کے تحفظ میں اک زمانہ آئے گا جسم جب سپر ہوگا روح کے تحفظ میں
روح کے تحفظ میں جسم کچلا جاتا تھا اک زمانہ ایسا تھا اک زمانہ ایسا ہے روح کچلی جاتی ہے جسم کے تحفظ میں اک زمانہ آئے گا جسم جب سپر ہوگا روح کے تحفظ میں
وہ بھی اک اچھا مصور تھا پچھلے بلوے میں ہی اس کے دونوں بازو کٹ گئے اور اس بلوے میں اس کی دونوں آنکھیں بجھ گئیں نور فطرت کی سبھی شکلیں مٹیں بڑی مشکل سے اس اندھے مصور کو ایک کمرہ چال میں ہی مل گیا اور پڑوسن کے وسیلے سے جواں بیٹی کو بھی کارخانے میں سدا کی تیسری پالی ملی اب وہ ماں کی ...
میری گردن میرے شانے میرے لب سب کے سب ویران ہیں اپنے گھر میں ایک میں ہوں اور کالی رات کا پر ہول سناٹا کسی کے پاؤں کی آہٹ نہیں چوڑیوں اور برتنوں کی کھنکھناہٹ بھی نہیں سوئی دھاگے ایک دوجے سے بھرے بیٹھے ہوئے ہیں دھول میں لپٹی کتابیں میز پر بکھری پڑی ہیں اور چولھا لکڑیوں کی یاد میں ...
اس سرائے میں مسافر کا قیام ایک لمحہ بے یقینی کا جس کو جنت یا جہنم جو بھی کہہ لو کیا کسی پہ انحصار ہر کوئی اپنے عمل کا ذمے دار بھول کر بھی یہ نہ سوچو کہ مقدر بھی بناتا ہے کوئی ورنہ جو ہے سامنے چپ چاپ دیکھو کیا بھلا ہے کیا برا جب تلک سہنے کی طاقت ہے سہو حال دل اپنا کسی سے مت کہو اب تو ...
خون چشیدہ صدیوں کا وہ گھور اندھیرا بکھر گیا جنگ و جدل کا جذبہ جاگا امن کا پرچم اتر گیا نصف صدی ڈھلنے کو ہے وہ رات ڈھلے پھر بھی لہو کا بپھرا دریا جاری ہے معصوموں کے نالوں سے مظلوموں کی آہوں سے انسانوں کی چیخوں سے تھراتے ہیں ویرانے سچ کہتا ہے رات ڈھلی رات ڈھلی یا خون میں ڈوبی ہوا ...
پہاڑوں سے گھری وادی میں، پتھر سے بنی اک چار دیواری اور اس دیوار کے اندر کئی کمرے ہزاروں سال کی ویرانیاں اوڑھے کھڑے ہیں انہی ویران کمروں میں سے اک کمرا جہاں تین آدمی اک چارپائی پر خود اپنے آپ سے باہر نکل کر اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں جیسے اپنے آپ میں تھے ہی نہیں وہ تین ہیں بس تین اور ...
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں اس کے دامن سے لپٹتا ہوں مناتا ہوں اسے واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے خواب ادھورے ہیں جو دہراتا ہوں ان خوابوں کو زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے اس سے کہتا ہوں تمنا کے لب و لہجے میں اے مری جان مری ...
آج سوچا ہے کہ احساس کو زائل کر دوں اپنے شوریدہ ارادے کو اپاہج کر لوں اپنی مجروح تمنا کا مداوا نہ کروں اپنی خوابیدہ محبت کا المناک مآل اپنی بے خواب جوانی کو سنایا نہ کروں اپنے بے کیف تصور کے سہارے کے لیے ایک بھی شمع سر راہ جلایا نہ کروں اپنے بے سود تخیل کو بھٹک جانے دوں زندگی جیسے ...
لو وہ چاہ شب سے نکلا پچھلے پہر پیلا مہتاب ذہن نے کھولی رکتے رکتے ماضی کی پارینہ کتاب یادوں کے بے معنی دفتر خوابوں کے افسردہ شہاب سب کے سب خاموش زباں سے کہتے ہیں اے خانہ خراب گزری بات صدی یا پل ہو گزری بات ہے نقش بر آب یہ روداد ہے اپنے سفر کی اس آباد خرابے میں دیکھو ہم نے کیسے بسر کی ...
رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی پتیاں سڑکوں کی سب جاگ رہی ہیں جیسے دیکھنا چاہتی ہیں شہر میں کیا ہوتا ہے میں ہمیشہ کی طرح ہونٹوں میں سگریٹ کو دبائے سونے سے پہلے خیالات میں کھویا ہوا ہوں دن میں کیا کچھ کیا اک جائزہ لیتا ہے ضمیر ایک سادہ سا ورق نامۂ اعمال ہے سب کچھ نہیں لکھا بجز اس ...