فیصلہ

آج سوچا ہے کہ احساس کو زائل کر دوں
اپنے شوریدہ ارادے کو اپاہج کر لوں
اپنی مجروح تمنا کا مداوا نہ کروں
اپنی خوابیدہ محبت کا المناک مآل
اپنی بے خواب جوانی کو سنایا نہ کروں
اپنے بے کیف تصور کے سہارے کے لیے
ایک بھی شمع سر راہ جلایا نہ کروں
اپنے بے سود تخیل کو بھٹک جانے دوں
زندگی جیسے گزرتی ہے گزر جانے دوں
چند لمحوں میں گزرنے کو ہے ہنگامۂ شب
سو گئے جام صراحی کا سہارا لے کر
سرد پڑنے لگا اجڑی ہوئی محفل کا گداز
تھک گئی گردش یک رنگ سے ساقی کی نظر
چند بیدار فسانوں کا اثر لوٹ گیا
دب گیا تلخ حقیقت میں نشہ تا بہ کمر
میں ابھی آخری مے نوش ہوں میخانے میں
دیکھنا کیا ہے مری سمت بڑھا جام بڑھا
لا صراحی کو مرے پاس شکستہ ہی سہی
چھیڑ ٹوٹے ہوئے تاروں کو کراہیں تو ذرا
سوچتا کیا ہے انڈیل اور انڈیل اور انڈیل
سرد پڑتی ہوئی محفل کے مکدر پہ نہ جا
اپنے بیدار تفکر کی ہلاکت پہ ہنسوں
آج سوچا ہے کہ احساس کو زائل کر دوں