شاعری

پاس کے شہر میں فساد

پاس کے شہر سے کرفیو کی بے آواز چاپ دھیرے دھیرے مرے شہر کی گلیوں اور چوراہوں تک آ پہنچی ہے رات کی طرح خوف پھیلا ہے دروازے کھڑکیاں چپ کتے بھی چپ ہراساں دور دور تک سڑکوں کو تکتے ہیں پھر روتے ہیں پاس کے شہر میں نعرے ابھرتے ہیں ایک ہی ساتھ جیسے ڈھیر سارے بکروں کی گردنوں پہ دھار دار ...

مزید پڑھیے

رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا

رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا رات کالی ہے اجلی ہے پیلی ہے نیلی ہے یا پھر رات کا کوئی رنگ ہی نہیں ہے مگر جو بھی ہو رات کالی ہے ایسا سمجھ لیجئے رات کالی ہے بہتی ہے جیسے ندی اندھے پانی کی کہرے کی یا دھند کی رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا ایک وحشی پرندے نے خنجر کا بوسہ لیا نوک خنجر پرندے ...

مزید پڑھیے

اپنے شہر میں فساد

سفید کبوتروں سے آج سارا آکاش خالی ہے دھوپ ڈری ہوئی فاختہ سی لگتی ہے منڈیروں پہ بیٹھی ہوئی زرد ہے کانپ کانپ اٹھتی ہے ہوا آدمی کی طرح کرفیو سے بھرے ہوئے شہر کی سڑکوں پہ گھوڑوں کی وحشی ٹاپیں آگ اڑاتی ہیں مکان جلتے ہیں مرے تمہارے اندر ہمارے دھواں دھواں سا کچھ رہ رہ اٹھتا ہے دور میں ...

مزید پڑھیے

کل کی بات

ایسے ہی بیٹھے ادھر بھیا تھے دائیں جانب ان کے نزدیک بڑی آپا شبانہ کو لیے اپنی سسرال کے کچھ قصے لطیفے باتیں یوں سناتی تھیں ہنسے پڑتے تھے سب سامنے اماں وہیں کھولے پٹاری اپنی منہ بھرے پان سے سمدھن کی انہیں باتوں پر جھنجھلاتی تھیں کبھی طنز سے کچھ کہتی تھیں ہم کو گھیرے ہوئے بیٹھی تھیں ...

مزید پڑھیے

متاع رائیگاں

یہ درد زندگی کس کی امانت ہے کسے دے دوں کوئی وارث نہیں اس کا متاع رائیگاں ہے یہ مسیحا اب نہ آئیں گے یہی نشتر رگ جاں میں خلش بنتا رہے گا میری سانسوں میں نہاں ہے یہ خدایا ہم سے پہلے لوگ بھی جو اس زمیں پر تھے یونہی پامال ہوتے تھے، جو اس کے بعد آئیں گے امید صبح کے خنجر سے زخمی ہو کے جائیں ...

مزید پڑھیے

آمادگی

ایک اک اینٹ گری پڑی ہے سب دیواریں کانپ رہی ہیں ان تھک کوششیں معماروں کی سر کو تھامے ہانپ رہی ہیں موٹے موٹے شہتیروں کا ریشہ ریشہ چھوٹ گیا ہے بھاری بھاری جامد پتھر ایک اک کر کے ٹوٹ گیا ہے لوہے کی زنجیریں گل کر اب ہمت ہی چھوڑ چکی ہیں حلقہ حلقہ چھوٹ گیا ہے بندش بندش توڑ چکی ...

مزید پڑھیے

ترغیب اور اس کے بعد

ترغیب: پھر میں کام میں لگ جاؤں گا آ فرصت ہے پیار کریں ناگن سی بل کھاتی اٹھ اور میری گود میں آن مچل بھید بھاؤ کی بستی میں کوئی بھید بھاؤ کا نام نہ لے ہستی پر یوں چھا جا بڑھ کر شرمندہ ہو جائے اجل چھوڑ یہ لاج کا گھونگٹ کب تک رہے گا ان آنکھوں کے ساتھ چڑھتی رات ہے ڈھلتا سورج کھڑی کھڑی مت ...

مزید پڑھیے

عروس البلاد

وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے بسوں کے شور میں ریلوں کی گڑگڑاہٹ میں چہل پہل میں بھڑوں جیسی بھنبھناہٹ میں کسی کو پکڑو سر راہ مار دو چاہے کسی عفیفہ کی عصمت اتار دو چاہے! وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے! عظیم شہر بڑے کاموں کے لیے ہیں میاں وزیر اعلی کی تقریر، لیڈروں کے ...

مزید پڑھیے

کاوش

نیا دن روز مجھ کو کتنا پیچھے پھینک دیتا ہے یہ آج اندازہ ہوتا ہے کہ میں آہستہ آہستہ ہزاروں میل کی دوری پہ تم سے آ گیا اور اب دنوں سالوں مہینوں کو اکٹھا کر کے گم گشتہ دیار ہو میں بیٹھا ہوں نہ کچھ آگے نہ کچھ پیچھے سوا کچھ وسوسوں کے کچھ خساروں کے کمر بستہ کہیں چلنے کو آگے جس کا واضح کچھ ...

مزید پڑھیے

کالا سورج

کتنے روشن آفتابوں کو نگل کر کالا سورج روشنی کے شہر میں داخل ہوا ساری کالی قوتوں نے کالے سورج کو اٹھایا دوش پر خود سبھی راہوں کو روشن کر گئے خود بخود سارے مکان و کارخانے جل اٹھے خود بخود غل ہو گئے سارے چراغ بے گناہوں کے لہو نے راستے روشن کیے آدمی کا کیا قصور رات بھر یہ کالا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 874 سے 960