شاعری

کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار (ردیف .. و)

کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار سبھی کا چاک گریباں ہے دیکھیے کیا ہو تمہیں خبر ہی نہیں اے طیور نغمہ سرا یہی چمن یہی زنداں ہے دیکھیے کیا ہو جہاں کشود نوا پر خزاں کے پہرے ہیں وہیں بہار غزل خواں ہے دیکھیے کیا ہو سبو اٹھا کہ یہ نازک مقام ہے ساقی نہ اہرمن ہے نہ یزداں ہے دیکھیے کیا ...

مزید پڑھیے

یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو

یہ عرض شوق ہے آرائش بیاں بھی تو ہو ادا شناس تو ہے آنکھ خونچکاں بھی تو ہو خدا خفا ہے تو سچے ہیں ناصحان عزیز ہمارے لب پہ کبھی شکوۂ بتاں بھی تو ہو یہ رنگ و نکہت و ترکیب و لفظ خیرہ سری ز راہ دیدہ بہ دل موج خوں رواں بھی ہو ہمیں بھی نغمہ گری پر ہے ناز بات تو کر ہمیں بھی جاں نہیں پیاری ہے ...

مزید پڑھیے

اپنی انا کے گنبد بے در میں بند ہے

اپنی انا کے گنبد بے در میں بند ہے لیکن بزعم خود وہ فلک تک بلند ہے ہر منزل ان کے واسطے بس اک زقند ہے وہ لوگ اپنا عزم ہی جن کا سمند ہے آتا ہے بار بار فریب خلوص میں کیا سادہ لوح اپنا دل درد مند ہے جو التہاب آتش غم سے ہے نالہ کش وہ دل نہیں چٹختا ہوا اک سپند ہے شاید مآل خندۂ گل ہے نگاہ ...

مزید پڑھیے

گل کی خونیں جگری یاد آئی

گل کی خونیں جگری یاد آئی پھر نسیم سحری یاد آئی آج فرمان رہائی پہنچا آج بے بال و پری یاد آئی دشمن آباد رہیں جن کے طفیل اپنی عالی گہری یاد آئی جب کسی نے مری آنکھیں سی دیں تب مجھے دیدہ وری یاد آئی ساز جب ٹوٹ گئے ہم نفسو اب تمہیں نغمہ گری یاد آئی کبھی روشن جو ہوئی شمع بہار باغ کی ...

مزید پڑھیے

دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات

دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات غم دوراں میں ہے عکس غم یار آج کی رات کوئی منصور سے جا کر یہ کہو ہم نفسو ہوں بہ تعزیر خموشی سر دار آج کی رات غم کے محور پہ ہیں ٹھہرے ہوئے افلاک و نجوم میری محفل میں نہیں وقت کو بار آج کی رات نہ مکاں آج ہے ثابت نہ زماں ہے سیار نہ خزاں شعبدہ آرا نہ ...

مزید پڑھیے

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں وہ تو بچارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں جن گلیوں میں ہم نے سکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں ان گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھرتے ہیں روپ سروپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھرتے ...

مزید پڑھیے

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں پھر ان سے عرض وفا کا ارادہ رکھتے ہیں یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ دل شگفتہ جبین کشادہ رکھتے ہیں خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں دکان بادہ فروشاں کے صحن میں عابدؔ فرشتے خلد کا اک در کشادہ رکھتے ہیں

مزید پڑھیے

ہم بن غم یار بھی جئے ہیں

ہم بن غم یار بھی جئے ہیں مرنے کے بڑے جتن کئے ہیں مخفی تجھ سے بھی ہیں غم یار کچھ وار جو دل نے سہہ لیے ہیں دل سے بھی چھپا کے ہم نے رکھے کچھ چاک جو عمر بھر سئے ہیں کچھ خون وفا سے کچھ حنا سے کیا رنگ بہار نے لیے ہیں افسوس ہماری سخت جانی احباب نے بھی گلے کئے ہیں گلشن میں عجب ہوا چلی ...

مزید پڑھیے

غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا

غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا لذت عرض وفا راحت جاں ہے کہ جو تھی دل‌ تپاں اشک رواں شوق جواں ہے کہ جو تھا شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا میرے پاؤں سے ہیں الجھے ہوئے ریشم کے سے تار ہمدمو یہ تو وہی ...

مزید پڑھیے

گردش جام نہیں رک سکتی (ردیف .. ے)

گردش جام نہیں رک سکتی جو بھی اے گردش دوراں گزرے صبح محشر ہے بلائے ظاہر کسی صورت شب ہجراں گزرے کوئی برسا نہ سر کشت وفا کتنے بادل گہر افشاں گزرے ابن آدم کو نہ آیا کوئی راس کئی آذر کئی یزداں گزرے اے غم یار تری راہوں سے عمر بھر سوختہ ساماں گزرے وہ جو پروانے جلے رات کی رات منزل ...

مزید پڑھیے
صفحہ 67 سے 4657