گل کی خونیں جگری یاد آئی
گل کی خونیں جگری یاد آئی
پھر نسیم سحری یاد آئی
آج فرمان رہائی پہنچا
آج بے بال و پری یاد آئی
دشمن آباد رہیں جن کے طفیل
اپنی عالی گہری یاد آئی
جب کسی نے مری آنکھیں سی دیں
تب مجھے دیدہ وری یاد آئی
ساز جب ٹوٹ گئے ہم نفسو
اب تمہیں نغمہ گری یاد آئی
کبھی روشن جو ہوئی شمع بہار
باغ کی بے بصری یاد آئی
کم نہ تھے گردش دوراں کے گلے
کیوں تری کم نظری یاد آئی
پہلے معلوم نہ تھا دل کا مقام
اب تمہیں شیشہ گری یاد آئی
آج ارباب خرد کو عابدؔ
میری شوریدہ سری یاد آئی