شاعری

روز روشن کو شب تار نہ کہنا آیا

روز روشن کو شب تار نہ کہنا آیا رات کو مطلع انوار نہ کہنا آیا کی ہے دنیا نے اسی پر تو عداوت ہم سے صاف جملہ پس دیوار نہ کہنا آیا اپنے اس جرم پہ اظہار ندامت کیسا دشت پر خار کو گلزار نہ کہنا آیا بال و پر کاٹ دیے اہل گلستاں نے مرے چوب کو شاخ ثمر دار نہ کہنا آیا قصر‌ تخریب کی تعمیر ہے ...

مزید پڑھیے

بڑھ گیا گر مرا اصرار تو پھر کیا ہوگا

بڑھ گیا گر مرا اصرار تو پھر کیا ہوگا کر دیا آپ نے انکار تو پھر کیا ہوگا پڑ گیا سرد یہ بازار تو پھر کیا ہوگا نہ رہا میں بھی خریدار تو پھر کیا ہوگا لوگ کہتے ہیں کہ میں ترک تعلق کر لوں نہ گیا تب بھی یہ آزار تو پھر کیا ہوگا میں جو بالفرض سر طور چلا بھی آؤں نہ ہوا آپ کا دیدار تو پھر کیا ...

مزید پڑھیے

دیکھ کر جادۂ ہستی پہ سبک گام مجھے

دیکھ کر جادۂ ہستی پہ سبک گام مجھے دور سے تکتی رہی گردش ایام مجھے ڈال کر ایک نظر پیار کی میری جانب دوست نے کر ہی لیا بندۂ بے دام مجھے کل سنیں گے وہی مژدہ مری آزادی کا آج جو دیکھ کے ہنستے ہیں تہہ دام مجھے دیکھ لیتا ہوں اندھیرے میں اجالے کی کرن ظلمت شب نے دیا صبح کا پیغام مجھے نہ ...

مزید پڑھیے

محفل دوست میں گو سینہ فگار آئے ہیں

محفل دوست میں گو سینہ فگار آئے ہیں صورت‌ نغمہ بہ اندازۂ بہار آئے ہیں اس نظر سے کہ ترے ظلم کی تشہیر نہ ہو بے قراری میں لیے دل کا قرار آئے ہیں ایک پندار خودی جس کو بچا رکھا تھا آج ہم وہ بھی تری بزم میں ہار آئے ہیں ظلمت‌ شام خزاں یاد کرے گی برسوں ہم جب آئے ہیں گلستاں بہ کنار آئے ...

مزید پڑھیے

بدل کے بھیس وہ چہرا کہاں کہاں نہ ملا

بدل کے بھیس وہ چہرا کہاں کہاں نہ ملا تلاش جس کی تھی وہ حسن جاوداں نہ ملا کھڑا ہوں کب سے سر رہ گزار وقت‌ ندیم میں جس کے ساتھ چلوں ایسا کارواں نہ ملا خزاں گزر گئی لیکن گلوں کے رنگ ہیں زرد بہار کو صلۂ خون کشتگاں نہ ملا کہاں سے ذہن میں چھپ چھپ کے وہم آتے ہیں کبھی یقیں کو سراغ رہ گماں ...

مزید پڑھیے

گیا تھا بزم محبت میں خالی جام لیے

گیا تھا بزم محبت میں خالی جام لیے کٹی ہے عمر گدائی کا اتہام لیے کہیں ہوئے بھی جو روشن محبتوں کے چراغ ہوائیں دوڑ پڑیں وحشتوں کے دام لیے طلسم راز نہ کھل جائے تنگ بینوں پر تمہارے نام سے پہلے ہزار نام لیے بھٹک رہا ہوں میں تنہائیوں کے جنگل میں حیات رقص میں ہے حسن صبح و شام لیے کبھی ...

مزید پڑھیے

گلشن دل میں ملے عقل کے صحرا میں ملے

گلشن دل میں ملے عقل کے صحرا میں ملے جو بھی ملنا ہے ملے اور اسی دنیا میں ملے برہمی انجمن شوق کی کیا پوچھتے ہو دوست بچھڑے ہوئے اکثر صف اعدا میں ملے آنے والوں نے مرے بعد گواہی دی ہے کئی گلزار مرے نقش کف پا میں ملے یوں بھی گزری ہے کہ چھائے رہے بیداری پر نیند آئی تو وہ غم خواب کی دنیا ...

مزید پڑھیے

عقل پہنچی جو روایات کے کاشانے تک

عقل پہنچی جو روایات کے کاشانے تک ایک ہی رسم ملی کعبہ سے بت خانے تک وادئ شب میں اجالوں کا گزر ہو کیسے دل جلائے رہو پیغام سحر آنے تک یہ بھی دیکھا ہے کہ ساقی سے ملا جام مگر ہونٹ ترسے ہوئے پہنچے نہیں پیمانے تک ریگزاروں میں کہیں پھول کھلا کرتے ہیں روشنی کھو گئی آ کر مرے ویرانے ...

مزید پڑھیے

ڈر ڈر کے جسے میں سن رہا ہوں

ڈر ڈر کے جسے میں سن رہا ہوں کھوئی ہوئی اپنی ہی صدا ہوں ہر لمحۂ ہجر اک صدی تھا پوچھو نہ کہ کب سے جی رہا ہوں جب آنکھ میں آ گئے ہیں آنسو خود بزم طرب سے اٹھ گیا ہوں چھٹتی نہیں خوئے حق شناسی سقراط ہوں زہر پی رہا ہوں رہبر کی نہیں مجھے ضرورت ہر راہ کا موڑ جانتا ہوں منزل نہ ملی تو غم ...

مزید پڑھیے

ان آنکھوں کو نظر کیا آ گیا ہے

ان آنکھوں کو نظر کیا آ گیا ہے مزاج آرزو بدلا ہوا ہے نہ جانے ہار ہے یا جیت کیا ہے غموں پر مسکرانا آ گیا ہے مری حالت پہ ان کا مسکرانا جواب نا مرادی آ گیا ہے نہیں اک میں ہی ناکام محبت یہی پہلے بھی اکثر ہو چکا ہے صبا کی رو نہ غنچوں کا تبسم چمن والو کہو کیا ہو گیا ہے شب غم سہمی سہمی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 49 سے 4657