شاعری

میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا

میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا کیوں میری طرف دیکھ کے تلوار کو دیکھا آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا دیکھے نہ مرے اشک مسلسل کبھی تم نے اپنی ہی سدا موتیوں کے ہار کو دیکھا اتوار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار ...

مزید پڑھیے

محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے

محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے رقص میں جب کہ وہ طرار اٹھے اور بیٹھے بے قراری سے یہ بیمار اٹھے اور بیٹھے کثرت خلق وہ محفل میں ہے تیری اک شخص نہیں ممکن ہے کہ یکبار اٹھے اور بیٹھے سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں دیتا ہے ہمیں چو حباب سر جو یار اٹھے ...

مزید پڑھیے

یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا

یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا الٰہی کبھو یاں بھی اسلام ہوگا کہیں کام میں وہ تو خود کام ہوگا یہاں کام آخر ہے واں کام ہوگا یہی دل اگر ہے یہی بے قراری تہ خاک بھی خاک آرام ہوگا صنم تین پانچ آپ کا چار دن ہے سدا ایک اللہ کا نام ہوگا یہ مژگاں وہ ہیں جن کی کاوش سے اک دن مشبک جگر مثل ...

مزید پڑھیے

غنچۂ وصل سر شام کھلا دے آ کر

غنچۂ وصل سر شام کھلا دے آ کر ہجر کی رت میں کوئی مژدہ سنا دے آ کر رقص جاری ہے لہو کا مری شریانوں میں بربط روح میں آواز ملا دے آ کر لوگ مر جاتے ہیں بے چارہ گری کے ہوتے دم عیسیٰ بھی نہیں اب کہ جلا دے آ کر اسی امید پہ سب اہل کرم بیٹھے ہیں کوئی سائل کی طرح آئے صدا دے آ کر مسکرا کر مری ...

مزید پڑھیے

وہ رقص کرتی موسموں کی شوخیاں نہیں رہیں

وہ رقص کرتی موسموں کی شوخیاں نہیں رہیں ہے شاخ گل وہی مگر وہ تتلیاں نہیں رہیں فضا میں جانے نفرتوں کا کیسا زہر گھل گیا محبتوں کی سبز سبز کیاریاں نہیں رہیں وداع ہو کے بھی ہے آج لڑکیوں کو فکر یہ قریب ان کی رازداں سہیلیاں نہیں رہیں معاملہ عجیب سا یہ دوستوں میں ہو گیا رقیب جب سے بن ...

مزید پڑھیے

جب امن کے آثار دیکھتے ہیں

جب امن کے آثار دیکھتے ہیں ماحول شرر بار دیکھتے ہیں ہے فرض یہاں کس پہ شہریاری سب اپنی ہی دستار دیکھتے ہیں آئنہ تو سب دیکھتے ہیں لیکن ہم آئنہ بردار دیکھتے ہیں میں میل کا پتھر ہوں مجھ کو رہرو مڑ مڑ کے کئی بار دیکھتے ہیں جو لوگ تھے بدنام شہر بھر میں وہ لوگ بھی کردار دیکھتے ہیں وہ ...

مزید پڑھیے

دام سو رکھتے ہیں لفظوں میں سخنور مجھ سے

دام سو رکھتے ہیں لفظوں میں سخنور مجھ سے بات کیجے گا ذرا سوچ سمجھ کر مجھ سے مجھے کھلتی نہیں تنہائی سفر کی یوں بھی گفتگو کرتے ہیں سب راہ کے پتھر مجھ سے وہ جو ہیں لذت تفہیم سخن سے واقف شعر سنتے ہیں وہی لوگ مکرر مجھ سے مجھ کو ڈر تھا کہ کہیں فاصلے بڑھ جائیں مگر وہ قریب آ گیا کچھ اور ...

مزید پڑھیے

نئی غزل کا نئی فکر و آگہی کا ورق

نئی غزل کا نئی فکر و آگہی کا ورق زمانہ کھول رہا ہے سخنوری کا ورق محبتوں کے حسیں باب سے ذرا آگے کتاب زیست میں ملتا ہے گمرہی کا ورق سنہری ساعتیں منسوب ہیں ترے غم سے پلٹ کے دیکھ ذرا میری زندگی کا ورق کتاب وقت کی آندھی میں کھل گئی شاید ہوا میں اڑ گیا دیرینہ دوستی کا ورق تلاوتوں ...

مزید پڑھیے

مری چاہتوں کے سوال پر کوئی مسکرا کے چلا گیا

مری چاہتوں کے سوال پر کوئی مسکرا کے چلا گیا مجھے پھر سے موسم وصل کا وہ حسین خواب دکھا گیا دل میزبان میں رنج کا یہی مدتوں سے ہے سلسلہ کوئی دن میں آ کے ٹھہر گیا کوئی رات رہ کے چلا گیا وہ ملن کی اولیں ساعتیں وہ کسی کا لمس عنایتیں کبھی وہ خمار سے تر ہوا کبھی مجھ پہ نشہ سا چھا گیا یہی ...

مزید پڑھیے

لب خموش سے اس نے خوش آمدید کہا

لب خموش سے اس نے خوش آمدید کہا اسی کو لوگوں نے پھر گفت اور شنید کہا بہار لالہ و گل سے خزاں کی آہٹ تک ہر ایک واقعہ موسم نے چشم دید کہا جنوں میں پہلے تو اقرار کر لیا اس نے جنوں کی بات کو پھر عقل سے بعید کہا حسین تبصرہ موسم پہ جب تمام ہوا تو اس نے کان میں چپکے سے کچھ مزید کہا ترا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4572 سے 4657