مری چاہتوں کے سوال پر کوئی مسکرا کے چلا گیا
مری چاہتوں کے سوال پر کوئی مسکرا کے چلا گیا
مجھے پھر سے موسم وصل کا وہ حسین خواب دکھا گیا
دل میزبان میں رنج کا یہی مدتوں سے ہے سلسلہ
کوئی دن میں آ کے ٹھہر گیا کوئی رات رہ کے چلا گیا
وہ ملن کی اولیں ساعتیں وہ کسی کا لمس عنایتیں
کبھی وہ خمار سے تر ہوا کبھی مجھ پہ نشہ سا چھا گیا
یہی سوچ کر تو میں دنگ تھا بھلا میں بھی کیا کوئی سنگ تھا
کہ وہ کار خیر سمجھ کے یوں مجھے راستے سے ہٹا گیا
غم عاشقی ہو ترا بھلا تجھے یاد رکھوں گا میں سدا
اسی ایک نام وفا پہ بس مجھے بار بار چھلا گیا
جنہیں رکھا میں نے سنبھال کر جو تھے جان سے بھی عزیز تر
کبھی سیل اشک تھا جوش پر وہ انہی خطوں کو گلا گیا