شاعری

آج یادوں نے عجب رنگ بکھیرے دل میں

آج یادوں نے عجب رنگ بکھیرے دل میں مسکراتے ہیں سر شام سویرے دل میں یہ تبسم کا اجالا یہ نگاہوں کی سحر لوگ یوں بھی تو چھپاتے ہیں اندھیرے دل میں صورت باد صبا قافلۂ یاد آیا زخم در زخم کھلے پھول سے میرے دل میں یاس کی رات کٹی آس کا سورج چمکا پھر بھی چمکے نہ کسی روز سویرے دل میں اک مری ...

مزید پڑھیے

بہ قدر دید نہ تھے تیری انجمن کے چراغ

بہ قدر دید نہ تھے تیری انجمن کے چراغ مری نگاہ فروزاں ہوئی ہے بن کے چراغ ہزار باد حوادث ہزار صرصر غم جلا رہا ہوں مگر عظمت چمن کے چراغ نقوش شہر نگاراں ابھارتے ہی رہے مرے جنوں کے اجالے تری لگن کے چراغ سواد عصر میں فردا کی تابناکی ہے بجھا دیے گئے اندیشۂ کہن کے چراغ ہجوم غم میں ...

مزید پڑھیے

کام بس فاتحہ خوانی سے نہیں ہوتا ہے

کام بس فاتحہ خوانی سے نہیں ہوتا ہے عشق اظہار زبانی سے نہیں ہوتا ہے ہے یہ قرآن عمل کرنے کی دولت یارو نفع بس لفظ معانی سے نہیں ہوتا ہے کچھ عنایت یہاں احباب بھی کر جاتے ہیں سب زیاں دشمن جانی سے نہیں ہوتا ہے کام ہو جاتا ہے بس مصرع اول سے بھی کبھی کام جو مصرع ثانی سے نہیں ہوتا ہے یہ ...

مزید پڑھیے

آسماں سر پہ اٹھایا بھی نہیں جائے گا

آسماں سر پہ اٹھایا بھی نہیں جائے گا ہاں مگر اس کو بھلایا بھی نہیں جائے گا حوصلہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ہم سے دوسرا عشق نبھایا بھی نہیں جائے گا شکوۂ ظلمت شب خوب کیا جائے گا اک دیا خود کا جلایا بھی نہیں جائے گا خاک اس شخص سے تعبیر پہ اسرار کریں جس سے کچھ خواب دکھایا بھی نہیں جائے ...

مزید پڑھیے

سر میں سودا کوئی باقی نہ جنوں ہے یوں ہے

سر میں سودا کوئی باقی نہ جنوں ہے یوں ہے اب تو آرام ہے راحت ہیں سکوں ہے یوں ہے اس سے ملنے کے بہانے تو بہت ہیں لیکن اس سے ملنا مرے پندار کا خوں ہے یوں ہے ناصحا تجھ کو خبر سب ہے محبت کیا ہے ورنہ یوں ہی نہیں سمجھا تھا کہ یوں ہے یوں ہے ہم ہیں محتاج ہر اک کام کے کرنے میں یہاں رب کا ہر کام ...

مزید پڑھیے

کوئی دیوار نہ در کھلتا ہے

کوئی دیوار نہ در کھلتا ہے پر مرا عزم سفر کھلتا ہے بڑی مشکل سے وہ در کھلتا ہے یہ الگ بات مگر کھلتا ہے ہم ہی دیوانے بنے پھرتے ہیں کب ترا ذوق نظر کھلتا ہے ماں تو رو لیتی ہے لیکن یارو کب یہاں کوئی پدر کھلتا ہے پردۂ عشق ہے لازم ورنہ میں ادھر اور وہ ادھر کھلتا ہے شعر در شعر کہے جاتے ...

مزید پڑھیے

اب کیا یہ حساب کتاب رکھیں کس کس نے ہمیں برباد کیا

اب کیا یہ حساب کتاب رکھیں کس کس نے ہمیں برباد کیا کس کس نے خوشیاں دیں ہم کو کس کس نے ہمیں ناشاد کیا اک آس تھی سو وہ ٹوٹ گئی اک سانس تھی وہ بھی چھوٹ گئی اب یہ کاہے کی ہچکی ہے اب کون ہے جس نے یاد کیا وہ عشق تھا یا مجبوری تھی اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا ہر روز معافی کے بدلے اک تازہ ستم ...

مزید پڑھیے

جب سے اس کو نظر میں رکھا ہے

جب سے اس کو نظر میں رکھا ہے ہوش کو ہم نے گھر میں رکھا ہے آنکھ حیران ہے کہ ہم نے بھی کیا نظارہ نظر میں رکھا ہے حوصلوں سے اڑان بھر پیارے کیا بھلا بال و پر میں رکھا ہے باہری رنگ و نور خوب سہی پر خزانہ تو گھر میں رکھا ہے ہے فقط عادتوں کا اک دفتر ورنہ کیا خاک گھر میں رکھا ہے پاؤں کس ...

مزید پڑھیے

ہم نہیں ملتے نہیں ملتے ہیں ہم شام کے بعد

ہم نہیں ملتے نہیں ملتے ہیں ہم شام کے بعد پھر بھی آ جاتے ہیں کچھ اہل کرم شام کے بعد دن وہ ظالم ہے کہ ڈھاتا ہے ستم شام کے بعد بڑھتا جاتا ہے مرا کوہ الم شام کے بعد جانے لگ جاتے ہیں سب سوئے حرم شام کے بعد اور وہاں پھر سے وہی جھوٹی قسم شام کے بعد اپنی یادوں سے غم شام کی چھٹی رکھیں ہونے ...

مزید پڑھیے

کہاں تھے شب ادھر دیکھو حیا کیوں ہے نگاہوں میں

کہاں تھے شب ادھر دیکھو حیا کیوں ہے نگاہوں میں اگر منظور ہے رکھ لو مجھے جھوٹے گواہوں میں موحد وہ ہوں گر میں سر وحدت کان میں کہہ دوں مؤذن بت کدہ میں ہوں برہمن خانقاہوں میں نظر مجھ سے چرا کر منہ چھپا کر کہتے جاتے ہیں کہ یہ چوری بھی لکھی جائے گی تیرے گناہوں میں سیہ کاری مری بن جائے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4567 سے 4657